بلوچ یکجہتی کمیٹی کا کوئٹہ میں جلسہ: ’ہم ایک جتھہ نہیں، بلوچ عوام ہمارے ساتھ ہیں‘

بلوچستان کے ساحلی شہر گوادر میں دھرنے کے خاتمے کے بعد بلوچ یکجہتی کمیٹی کے زیرِ اہتمام 72 گھنٹوں میں 8 مقامات پر بہت بڑے اجتماعات منعقد ہوئے۔
پیر کے روز ان میں سے آخری دو اجتماعات میں سے پہلا افغانستان سے متصل سرحدی ضلع نوشکی کے ہیڈکوارٹر نوشکی اور جبکہ دوسرا شام کو کوئٹہ میں منعقد ہوا۔
بلوچ یکجہتی کمیٹی کے رہنما صبغت اللہ بلوچ کا کہنا ہے کہ ’یکجہتی کمیٹی کے زیرِ اہتمام 28 جولائی کو گوادر میں بلوچ راجی مچی (بلوچ قومی اجتماع) نے صرف 6 سے 7 گھنٹے کے لیے منعقد ہونا تھا لیکن ریاستی اداروں کے مبینہ ظلم اور تشدد کی وجہ سے آج بلوچستان کے بلوچ آبادی والے ہر علاقے میں راجی مچی منعقد ہورہا ہے۔‘
کوئٹہ میں بلوچ یکجہتی کمیٹی کے زیرِ اہتمام اجتماع سریاب کے علاقے شاہوانی سٹیڈیم میں ہوا جس میں خواتین سمیت ہزاروں افراد نے شرکت کی۔
سٹیج پر ان زخمی افراد میں سے بھی بعض موجود تھے جو کہ کوئٹہ سے گوادر جانے والے قافلے پر مستونگ کے مقام پر فائرنگ سے زخمی ہوئے تھے۔
کوئٹہ اور نوشکی میں ان اجتماعات سے بلوچ یکجہتی کمیٹی کی مرکزی آرگنائزر ڈاکٹر ماہ رنگ بلوچ، وہاب بلوچ، صبغت اللہ شاہ، ڈاکٹر صبیحہ بلوچ اور بیبرگ بلوچ نے خطاب کیا۔
ڈاکٹر ماہ رنگ نے کہا کہ انگریزوں کے دور سے لیکر اب تک ایک منصوبے کے تحت بلوچوں کو مختلف حوالوں سے تقسیم کرکے ان کو کمزور کیا گیا۔
ان کا کہنا تھا کہ ’ایک نہ ہونے کی وجہ سے بلوچ آج مختلف مظالم کا شکار ہیں اور اگر انھیں ان مظالم سے نجات حاصل کرنا ہے تو انھیں قبائلیت کے خول سے نکل کر متحد ہونا پڑے گا۔‘
صبغت اللہ شاہ نے کہا کہ ’ریاست اور ریاستی ادارے ابھی تک بلوچوں کی نفسیات سے بے خبر ہیں کیونکہ ان کا خیال ہے کہ وہ ایک گولی چلائیں گے تو یہ بھاگ جائیں گے لیکن انھیں معلوم نہیں کہ بلوچ مقابلہ کرتے ہیں جس کا ایک اظہار یہ بڑے بڑے اجتماعات ہیں۔‘
انھوں نے کہا کہ ’ریاستی اداروں نے گوادر میں راجی مچی کو ناکام بنانے کے لیے تشدد کرکے ایک خوف کا ماحول بنایا لیکن نہ صرف گوادر میں راجی مچی منعقد ہوا بلکہ اس کے بعد اب ہر شہر میں راجی مچی منعقد ہورہا ہے۔‘
بیبرگ بلوچ نے کہا کہ جو لوگ یہ کہتے تھے کہ ’بلوچ یکجہتی کمیٹی ایک جتھہ ہے وہ آج آکر یہاں دیکھیں کہ بلوچ عوام بلوچ یکجہتی کے ساتھ کھڑا ہے۔‘