گوادر میں دھرنے کے شرکا پر مبینہ تشدد، بلوچستان کے متعدد علاقوں میں شٹر ڈاؤن ہڑتال

بلوچستان کے ساحلی شہر گوادر میں بلوچ یکجہتی کمیٹی کے دھرنے کے شرکا پر مبینہ تشدد اور مختلف علاقوں سے قافلوں کو گوادر جانے سے روکنے کے خلاف بلوچستان کے متعدد علاقوں میں شٹرڈاؤن ہڑتال کے علاوہ احتجاج کا سلسلہ جاری ہے۔
ادھر خود گوادر شہر میں بلوچ یکجہتی کمیٹی کے زیر اہتمام گوادر میں میرین ڈرائیو پر دھرنا بھی جاری ہے۔ بلوچستان کے متعدد علاقوں میں بعض اہم شاہراہیں بھی بند ہیں۔ ان شاہراہوں کی بندش کی ایک وجہ وہ رکاوٹیں ہیں جو کہ حکومت کی جانب سے یکجہتی کمیٹی کے قافلوں کو گوادر جانے سے روکنے کے لیے کھڑی کی گئی ہیں جبکہ دوسری جانب بعض علاقوں میں یہ احتجاج کی وجہ سے بھی بند ہیں۔
مستونگ شہر سے 15 کلومیٹر دور کھڈکوچہ سے تعلق رکھنے والے مقامی کونسلر اور سماجی رہنما محمد اسماعیل بلوچ نے بتایا کہ کوئٹہ کراچی ہائی وے پر ٹریفک نہیں ہے۔
اسی ہائی وے پر کوئٹہ سے 40 کلومیٹر کے فاصلے پر بلوچ یکجہتی کمیٹی کا وہ قافلہ موجود ہے جو کہ کوئٹہ سے گوادر سے نکلا تھا۔ پولیس اور سکیورٹی فورسز کے اہلکار اس قافلے کو کوئٹہ سے آگے جانے نہیں دے رہے ہیں۔
گذشتہ شب سے کوئٹہ سے جانے والے اس قافلے میں شامل یکجہتی کمیٹی کے رہنماؤں کے فون پر رابطہ نہیں ہو پا رہا ہے۔ گوادر کی طرح بعض دیگر شہروں میں بھی موبائل فون اور پی ٹی سی ایل سروس دستیاب نہیں ہیں۔
مستونگ میں موجود بلوچ یکجہتی کمیٹی کے رہنماؤں سے رابطہ نہ ہونے پر جب مستونگ میں موجود قافلے کے بارے میں مستونگ پولیس اور لیویز فورس کے لینڈ لائنز پر رابطہ کیا گیا تو وہ نمبرز بھی بند جا رہے تھے۔
اسماعیل بلوچ نے بتایا کہ کھڈکوچہ میں تو موبائل فون سروس کام کر رہی ہے لیکن مستونگ شہر اور اس کے نواحی علاقوں میں رابطے نہیں ہو رہے ہیں۔
مستونگ سے تعلق رکھنے والے سینیئر صحافی فیض درانی نے بتایا کہ موبائل فون سروس بند ہونے کی وجہ سے خبروں کی ترسیل کے لیے انھیں کھڈکوچہ کے علاقے میں آنا پڑا ہے۔
مستونگ کی طرح گوادر سے متصل ضلع کیچ کے ہیڈکوارٹر تربت کے علاوہ پنجگور شہر میں بھی موبائل فونز اور پی ٹی سی ایل کے لینڈ لائنز پر رابطہ نہیں ہوپا رہا ہے۔
گوادر شہر میں اس وقت کیا صورتحال ہے؟
گوادر انتظامی لحاظ سے مکران ڈویژن کا حصہ ہے۔گوادراور مکران ڈویژن کے سب سے بڑے شہر اور ہیڈکوارٹر میں رابطوں میں مشکلات کے باعث بلوچستان کے محکمہ داخلہ سے تعلق رکھنے والے ایک سینیئر اہلکار نے نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر بتایا کہ گوادر میں میرین ڈرائیو پر بلوچ یکجہتی کمیٹی کا دھرنا آج منگل کو بھی جاری ہے۔
تاہم ان کا کہنا تھا کہ میرین ڈرائیور اور اس کے دیگر علاقوں میں توڑ پھوڑ بہت ہوئی ہے جبکہ ’بی اینڈ آر‘ کے دفتر کو نقصان پہنچانے کے علاوہ روڈ پر دیگر تنصیبات کو بھی کو بھی نقصان پہنچایا گیا ہے۔
انھوں نے الزام عائد کیا کہ یہ توڑپھوڑ گذشتہ روز دھرنے میں مشتعل لوگوں نے کی ہے۔
محکمہ داخلہ کے اہلکار نے بلوچ یکجہتی کمیٹی کے تین رہنماؤں صبغت اللہ شاہ، سمّی دین بلوچ اور صبیحہ بلوچ کی گرفتاری کی تصدیق نہیں کی تاہم ان کا کہنا تھا کہ پولیس نے نیشنل پارٹی کے مقامی رہنما اشرف حسین کو گرفتار کیا ہے۔
اہلکار نے بتایا کہ وزیر اعلیٰ نے یہ واضح ہدایت دی ہے کہ خواتین کے خلاف نہ کوئی کارروائی کی جائے اور نہ ان کے خلاف مقدمات قائم کیے جائیں۔
اگرچہ محکمہ داخلہ کے اہلکار نے میرین ڈرائیور پر توڑپھوڑ اور سکیورٹی فورسز کے اہلکاروں کو تشدد کا نشانہ بنانے کی تمام تر ذمہ داری دھرنے کے شرکا پر عائد کی لیکن رابطوں میں مشکلات کی وجہ سے بلوچ یکجہتی کمیٹی کا مؤقف معلوم نہیں ہو سکا ہے۔
تاہم بلوچ یکجہتی کمیٹی (بی وائے سی) نے گذشتہ روز ایک بیان میں الزام عائد کیا ہے کہ پاکستان فوج اور ایف سی نے پرامن بلوچ قومی اجتماع یعنی دھرنے کے شرکا پر ایک اور حملہ کیا ہے۔
بلوچ یکجہتی کمیٹی نے الزام عائد کیا کہ اجتماع کو چاروں اطراف سے گھیر لیا گیا ہے۔ پرامن مظاہرین پر فائرنگ کی گئی ہے اور انھیں تشدد کا نشانہ بنایا گیا ہے، جس کے نتیجے میں کئی افراد زخمی اور سینکڑوں کو گرفتار کر لیا گیا ہے۔
انھوں نے مزید الزام عائد کیا کہ پاکستانی حکومت گوادر میں پرامن مظاہرین کے خلاف ظلم و جبر کا مظاہرہ کر رہی ہے اور سکیورٹی فورسز نے پورے شہر کو بندوق کی نوک پر یرغمال بنا رکھا ہے۔
ان کا الزام ہے کہ ہمیں زخمیوں کو یہاں سے نکالنے کی اجازت نہیں دی جا رہی اور نہ ایمبولینسز کو راستہ دیا جا رہا ہے۔
گذشتہ شب دھرنے سے خطاب کرتے ہوئے ڈاکٹر ماہ رنگ بلوچ نے دعویٰ کیا کہ ایک ہزار کے لگ بھگ افراد کو گرفتار بھی کیا گیا ہے۔
گذشتہ روز صورتحال کی خرابی کی وجہ کیا بنی؟
سرکاری حکام کا کہنا ہے کہ جہاں مظاہرین کی جانب سے توڑ پھوڑ کی گئی وہاں ان کی مبینہ تشدد سے ایف سی کا ایک اہلکار ہلاک اور سکیورٹی فورسز کے ایک آفیسر سمیت 16 اہلکار زخمی بھی ہوئے۔
گذشتہ روز بلوچستان اسمبلی کے اجلاس سے خطاب کرتے ہوئے بلوچستان کے وزیر اعلیٰ میر سرفراز بگٹی نے سرکاری اہلکاروں پر تشدد کی مذمت کرتے ہوئے کہا کہ اس کا کوئی جواز نہیں تھا۔
تاہم گذشتہ روز پولیس اور سکیورٹی فورسز نے ایک اہلکار کو بازیاب کرانے کے لیے کارروائی کی تھی جن کو سرکاری حکام کے مطابق دھرنے کے شرکا نے پکڑا تھا۔
محکمہ داخلہ کے اہلکار نے اس بات کی تصدیق کی کہ دھرنے کے شرکا نے ایک شخص کو پکڑا تھا جس کو بازیاب کرنے کے لیے کارروائی کی گئی۔
اس شخص کے حوالے سے رابطوں کی وجہ سے بھی براہ راست بلوچ یکجہتی کمیٹی کے عہدیداروں سے رابطہ نہیں ہوسکا تاہم اس کے حوالے سے ایک ویڈیو جاری کی گئی ہے۔
بلوچ یکجہتی کمیٹی کے ذرائع سے جاری ہونے والے اس ویڈیو میں اس شخص سے ایک وائرلیس سیٹ اور پسٹل بھی برآمد کیا گیا ہے جبکہ اس شخص کا مبینہ اعترافی ویڈیو بیان بھی ہے۔
بلوچ یکجہتی کمیٹی کے ذرائع کی جانب سے یہ دعویٰ کیا جا رہا ہے کہ پکڑا جانے والا شخص خفیہ اداروں کا اہلکار تھا جن کو مبینہ طور پر یکجہتی کمیٹی کے رہنماؤں کو مارنے کے لیے بھیجا گیا تھا۔
تاہم محکمہ داخلہ کے اہلکار نے ان الزامات کو مسترد کرتے ہوئے بتایا کہ چونکہ دھرنے کے شرکا نے اس شخص کو حبس بے جا میں رکھا تھا جن کی بازیابی کے لیے کارروائی کی گئی۔
ایسی اطلاعات کے اس شخص کی بازیابی کے لیے بڑے پیمانے پر کارروائی کے لیے دھرنے کے شرکا میں اشتعال پھیل گیا، جس کی وجہ سے وہاں گذشتہ روز صورتحال خراب ہوئی۔
’مطالبات تسلیم ہونے تک دھرنا جاری رہے گا‘
دو مطالبات تسلیم ہونے تک بلوچ یکجہتی کمیٹی نے میرین ڈرائیو پر دھرنے کو جاری رکھنے کا فیصلہ کیا ہے۔ ان میں سے ایک دھرنے میں شرکت کے لیے آنے والے قافلوں کو گوادر آنے دینا اور گوادر میں بلوچ راجی مچی یعنی بلوچ قومی اجتماع کی مناسبت سے گرفتار کیے جانے والے تمام افراد کی رہائی کے مطالبات شامل ہیں۔
گذشتہ شب دھرنے سے خطاب کرتے ہوئے ڈاکٹر ماہ رنگ بلوچ نے ان مطالبات کو دہراتے ہوئے کہا کہ جب تک تمام قافلے گوادر نہیں پہنچیں گے اس وقت تک دھرنا جاری رہے گا۔
انھوں نے اپنے خطاب میں یہ بھی کہا کا کہ ہم سے پوچھا جا رہا ہے کہ آپ نے جلسے کے لیے گوادر کا انتخاب کیوں کیا تو ہم ان کو بتانا چاہتے ہیں کہ گوادر بلوچوں کی سرزمین ہے اس لیے ہم نے اس کا انتخاب کیا۔
ان کا کہنا تھا کہ جو ممالک اور کمپنیاں بلوچستان میں سرمایہ کاری چاہتی ہیں ان کو ہم بتانا چاہتے ہیں کہ بلوچ آج اپنی سرزمین کے لیے جان کی قربانی دے رہے ہیں۔
ان کا کہنا تھا کہ جو بھی ان حالات میں یہاں اراضی کی خریداری کر کے سرمایہ کاری کریں گے ان کو بلوچ اپنا دشمن تصور کریں گے۔
ان کا کہنا تھا کہ ’ہم پوری دنیا پر واضح کرنا چاہتے ہیں کہ اس سرزمین کے مالک پنڈی کے فوجی نہیں ہیں بلکہ یہاں کے بلوچ ہیں۔‘ گوادر کے مالک یہاں کے بلوچ ہیں۔ اسی طرح ریکوڈک کے مالک بھی وہی بلوچ ہیں، جن کے پائوں میں جوتے نہیں۔‘