کیا کارل مارکس کا نظریہ ناکام ہوچکا ہے؟

کیا کارل مارکس کا نظریہ ناکام ہوچکا ہے؟
لاہور (جاگرتا نیوز) آج اس شخص کی سالگرہ ہے جس کے لیے علامہ اقبال جیسے اسلامی فکر سے لبریز شاعر نے لکھا تھا:
”وہ کلیم بے تجلی، وہ مسیح بے صلیب
نیست پیغمبر و لیکن در بغل دارد کتاب“
ان کی وہ کتاب جو دنیا میں بہت سارے ناکام اور کامیاب انقلابوں کا سبب بنی۔ ایک دور ایسا بھی تھا جب پوری دنیا کو سرخ رنگ میں تبدیل کرنے کی تمنا کسی احمق کا خواب نہیں سمجھی جاتی تھی۔ کیوں کہ دنیا دو کیمپوں میں بٹی ہوئی تھی۔ مگر گذشتہ صدی کے دوراں سوویت یونین کے زوال کے بعد پوری دنیا میں اس انقلابی نظریہ کے بارے میں ”ناکام“ جیسے الفاظ استعمال ہونے لگے جو نظریہ کبھی باغی ذہنوں کے لیے مسرت کا گیت تھا۔
آج چین، کیوبا اور ویٹنام جیسے ممالک میں سوشلسٹ حکومت قائم ہے مگر اس طرح کی نہیں جس طرح ماؤزے تنگ، کاسترو اور ہوچی منہ کے دور میں تھی۔ آج دنیا میں کمیونسٹ تحریک ماضی کی طرح طاقتور نہیں ہے۔ مگر دنیا میں آج بھی کوئی ایسا ملک مشکل ہی ہوگا جس میں کمیونسٹ پارٹی کسی نہ کسی صورت میں موجود نہ ہو۔ اس جدید سیاسی دور میں اکثر اوقات اعتماد کے ساتھ کہا جاتا ہے کہ اب سوشلسٹ انقلاب کوئی دیوانہ ہی دیکھ سکتا ہے مگر یہ بھی حقیقت ہے کہ بہت سارے ممالک میں بہت سارے ذہین لوگ آج بھی طبقاتی نظام کو غیرفطری اور ختم ہوجانے والا نظام کہتے ہیں اوران کو آج بھی یقین ہے کہ انسان سرمائیدارانہ سیاست کے چنگل سے نکل کر ایک بار پھر سرخ پرچم تھامے گا اور ہر ملک میں سوشلسٹ انقلاب آئے گا۔