’احتجاج کی آڑ میں ریاستی رٹ کو چیلنج، سرکاری املاک کو نقصان اور عوام کو تکلیف دینے کی اجازت نہیں دی جائے گی‘ میر ضیا اللہ لانگو

بلوچستان کے ساحلی شہر گوادر میں پیر کو دوسرے روز بھی سیکورٹی فورسز کے اہلکاروں اور مظاہرین کے درمیان جھڑپیں ہوئی ہیں۔
اگرچہ سرکاری حکام نے جھڑپوں کی تصدیق کی ہے اور یہ بھی بتایا کہ مظاہرین کو میرین ڈرائیور سے منتشر کیا گیا ہے لیکن مظاہرین بعد میں دوبارہ میرین ڈرائیو پر جمع ہو گئے اور ان کا وہاں دھرنا جاری ہے۔
گوادر میں موبائل و لینڈ لائن فونز اور راستوں کی بندش کے باعث بی بی سی جھڑپوں کی وجوہات کے متعلق معلومات دینے سے قاصر ہے۔
ایک ویڈیو بیان میں ماہ رنگ بلوچ نے الزام عائد کیا ہے کہ دھرنے کے شرکا سے بات چیت کرنے کی بجائے ان کو دوسری مرتبہ سیکورٹی فورسز نے تشدد کا نشانہ بنایا ہے۔
انھوں نے الزام عائد کیا کہ جن لوگوں کو تشدد کا نشانہ بنایا گیا ان کے بارے میں یہ معلوم نہیں کہ وہ کس حال میں ہیں کیونکہ ہمیں ہسپتال میں زخمیوں کے پاس نہیں جانے دیا جارہا ہے۔
انھوں نے دعویٰ کیا کہ اب تک ایک ہزار کے لگ بھگ افراد کو گرفتار کیا گیا ہے۔ تاہم سرکاری حکام نے اتنی بڑی تعداد میں مظاہرین کی گرفتاریوں کی تردید کی ہے۔
مکران ڈویژن کے انتظامیہ کے ایک اہلکار نے بتایا کہ ایک شخص کو دھرنے کے شرکا نے پکڑ کر اپنے تحویل میں رکھا تھا جسے بازیاب کرانے کے لیے کارروائی کی گئی۔
انھوں نے بتایا کہ اس شخص کی بازیابی کے دوران دھرنے میں شریک مظاہرین کے ساتھ سیکورٹی فورسز کی جھڑپیں ہوئی جن کے دوران 20 سے زائد مظاہرین کو گرفتار کیا گیا۔
مکران انتظامیہ کے اہلکار نے بتایا کہ گذشتہ روز سیکورٹی فورسز کے ساتھ جھڑپوں میں جو شخص ہلاک ہوا ان کی لاش کو ان کے آبائی علاقے سوراب روانہ کر دیا گیا۔
درایں اثنا جھڑپوں میں مارے جانے والے سیکورٹی فورسز کے اہلکار کی نماز جنازہ کی ادائیگی کے بعد ان کی لاش کو ان کے آبائی علاقے سبیّ کے لیے روانہ کر دیا گیا ہے۔
وزیر اعلیٰ بلوچستان میر سرفراز بگٹی نے بلوچستان اسمبلی کے اجلاس کو بتایا کہ ان جھڑپوں میں سیکورٹی فورسز کے 16 اہلکار زخمی ہوئے جن میں ایک آفیسر میں شامل ہیں۔
پیر کو بلوچستان کے وزیر داخلہ میر ضیا اللہ لانگو بھی گوادر پہنچ گئے جہاں انھوں نے صورتحال کا جائزہ لینے کے لیے ایک اجلاس میں شرکت کی۔
ایک سرکاری اعلامیہ کے مطابق اجلاس میں ڈپٹی کمشنر گوادر حمود الرحمن، ڈی آئی مکران رینج ڈاکٹر فرحان زاہد، ڈی آئی جی نصیرآباد رینج ایاز بلوچ،ا ے ڈی سی گوادر سربلندکھوسہ اور اے سی گوادر جواد زہری بھی شریک ہوئے۔
وزیر داخلہ کو بریفنگ کے دوران بتایا گیا کہ کچھ عناصر قانون ہاتھ میں لے کر امن وامان سبوتاژ کرنا چاہتے تھے جن کے خلاف کارروائی کی گئی جس دوران 20 سے زائد افراد کو گرفتار کیا گیا۔
وزیر داخلہ نے کہا کہ احتجاج کی آڑ میں ریاستی رٹ کو چیلنج، سرکاری املاک کو نقصان اور عام عوام کو تکلیف دینے کی اجازت نہیں دی جائے گی۔
واضح رہے کہ بلوچ یکجہتی کمیٹی نے گوادر میں 28 جولائی کو ہونے والے جلسے کو میرین ڈرائیور پر دو مطالبات تسلیم ہونے تک دھرنے میں تبدیل کیا ہے۔
ان میں سے ایک مطالبہ یہ ہے کہ گوادر میں بلوچ قومی اجتماع کی مناسبت سے گرفتار افراد کو رہا کیا جائے اور راستوں میں روکے جانے والے افراد کو گوادر آنے دیا جائے۔