سرحدی گاندھی۔۔۔
باچاخان

باچاخان کے بارے میں دنیا جانتی ہے عبدالغفار خان جو کہ باچا خان کے نام سے زیادہ مشہور تھے تاریخ میں اس پورے بر صغیر میں ان کا نام اسمان پہ ستاروں کی طرح چمکتا ہے اپ کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ جب بر صغیر کا بٹوارہ ہو رہا تھا اس میں بھی باچا خان کا بہت عمل دخل تھا اس وقت باچا خان کو سرحدی گاندھی بھی مانا جاتا تھا اور پورے بر صغیر میں جو بڑے بڑے لیڈرز تھے ان کو پہلی قطار میں رکھا جاتا تھا اور پختون خطے کا اپ کو بڑا درویش لیڈر مانا جاتا تھا باچا خان 98 سال کی عمر پائی اور 20 جنوری 1988 میں وفات پا گئے ان کی وصیت کے مطابق ان کو جلال اباد ان کے آبائی گھر افغانستان میں دفنایا جانا تھا ان کی وفات کے ٹھیک دو دن بعد ان کی میت کو جلال اباد افغانستان میں لے جانے کی تیاریاں شروع ہو گئیں پورا پشاور شہر جیسے سوگوار تھا اور ایسے لگتا تھا کہ سارا شہر ان کی میت کے ساتھ ان کو دفنانے کے لیے جانے والا ہے خیر میں فرنٹیئر پوسٹ میں کام کرتا تھا اور ہمارے دفتر سے بھی ایک بس جو کہ بہت سارے صحافیوں سے بھر کے اس قافلے کے ساتھ شامل ہو گئی جو قافلہ افغانستان جانے کے لیے بالکل تیار تھا اور میں بھی اس صحافیوں کی بس پہ سوار تھا اور میرے ساتھ میرے فرنٹیئر پوسٹ کے بہت سارے ساتھی اور بہت سارے فارن صحافی بھی اسی بس میں تھے جو کہ اس قافلے کے ساتھ چل رہے تھے قافلہ پشاور سے روانہ ہوا اور پاکستان کی سرحد کو پار کرتا ہوا افغانستان میں داخل ہوا یہ اس وقت کی بات ہے جب سویت یونین افغانستان میں اپنے جھنڈے گاڑے ہوئے تھا جگہ جگہ سویت یونین کے فوجی سوویت یونین کے ٹینکس سوویت یونین کی پیکٹس جگہ جگہ لگی ہوئی تھی قافلہ بہت تیزی سے روانہ ہوا کہا جاتا ہے پھر روانہ ہوتے وقت اتنے لوگ تھے کہ اپ ان کو ایک ایک کر کے گن نہیں سکتے میرا خیال ہے دنیا کی تاریخ میں یہ ایک ایسا وقت تھا یا ایسا واقعہ تھا کہ جس میں 50 ہزار سے زیادہ لوگ بغیر پاسپورٹ کی کسی ایک ملک سے دوسرے ملک جا رہے تھے ٹریفک کا شور اور میں چونکہ ایسی سیٹ پہ بیٹھا ہوا تھا میں تو افغانستان کے سنگلاخ پہاڑ اور سڑکیں وہاں کے لوگوں کو غور سے دیکھنے کی کوشش کر رہا تھا کیا یہ وہی افغانی ہیں جو ایک بہت بڑی جنگ سے گزر رہے ہیں مجھے ان افغانیوں کو داد دینی پڑ رہی تھی کیونکہ انہوں نے بہت عجیب و غریب زمانے دیکھے ہیں حکومتوں کو اتے جاتے اور تخت الٹتے دیکھے ہیں جب بس میں سے مجھے کوئی ابادی نظر اتی تھی تو مجھے صاف لگتا تھا یہ کوئی ایسا ملک ہے جہاں پہ غربت لگتا ہے کہ ہمیشہ کے لیے بس گئی ہے لیکن دل میں امید جاگی ہوئی تھی کہ اس ملک کی قسمت بھی اب بدلنے والی ہے کیونکہ روس کا بہت بڑا دعویٰ تھا کہ وہ افغانستان میں ا کے افغانستان کی قسمت بدل دے گا اور یہاں پہ ترقی کے جھنڈے گاڑے گا یہ باتیں صرف سننے والی تھی اگے دیکھیے کیا ہوتا ہے میں چونکہ اس تاریخ کا حصہ ہوں مجھے لمحہ با لمحہ اس تاریخ کو پڑھنے اور دیکھنے کی عادت پڑ چکی ہوئی تھی تو میں ان سب چیزوں کو بہت غور سے دیکھتا تھا کہ یہ کیا ہو رہا ہے ادھر تو میں روس کے جو ارادے تھے ان کو سن رہا تھا اور ادھر جو ضیاء الحق کے ارادے تھے جس نے ایک بہت بڑی فوج ظفر موج تیار کر رکھی تھی جو کہ بارہا افغانستان پہ حملے کرتے تھے اور بم دھماکے کرتے تھے کہ بمباری بم دھماکے گولیاں گولوں کی برسات تھمنے کا نام نہیں لیتی تھی اب تو میں دونوں ملکوں پاکستان اور افغانستان کے حالات ایک ہی نظر سے دیکھ رہا تھا جس قدر سویت یونین کی فوجیں افغانستان میں پائی جاتی تھی اسی طرح پاکستان میں جو ضیاء الحق نے اور ضیاء الحق کی ٹیموں نے مجاہدین کی جو فوجیں تیار کی تھی امریکہ کے تعاون سے یعنی آدھے سے زیادہ میرا ملک امریکی اسلحے سے بھرا ہوا تھا اب اندازہ لگا سکتے ہیں کہ لڑائی کتنی گمبھیر ہونے والی ہے اور مارے کون جائیں گے عوام بس کی کھڑکی سے جو نظارے میں دیکھ رہا تھا وہ کوئی اتنے اچھے نہیں تھے اور بس کی سپیڈ کچھ ایسی تھی کہ میں سوائے سڑک کے کنارے جو کچھ مجھے نظر ا رہا ہے اس کے علاوہ میں بہت دور دور تک نہیں دیکھ سکتا تھا کیونکہ ہر طرف سنگلاخ پہاڑ تھے پہاڑیاں تھیں جن کے پار میرا دیکھنا بہت محال تھا ویسے تو میں نے بہت نظارے دیکھے جن کو کہانی میں لکھا جا سکتا ہے لیکن یہ نظارہ بہت عجیب تھا کہ اب پہاڑوں کی بجائے میدانی علاقہ شروع ہوا تو مجھے دور تھری ڈی میں کوئی چیز زمین پر پڑی ہوئی نظر ائی لیکن جب بس قریب پہنچی تو وہ خواتین تھیں جن کی تعداد کم از کم دو ڈھائی سو تین سو کے قریب ہوگی اور وہ سر جوڑ کے بیٹھی ہوئی ہے اور انہوں نے شاید سخت گرم کپڑے پہنے ہوئے ہیں جو کہ گہرے رنگوں کے ہیں اور جب ان کو سردی لگتی ہوگی تو شاید اکٹھے ہو کے اس طرح بیٹھنے سے ٹھنڈک کم ہو جاتی ہوگی میرے ساتھ بیٹھے ہوئے فوٹوگرافرز نے تصویریں تو اتاری لیکن میرے پاس اس سفر کی کوئی تصویر نہیں ہے صرف میرا دل گواہی دے سکتا ہے کہ میں نے ایک ایسا ملک دیکھا جہاں پہ کوئی کیل سیدھی نظر نہیں ارہی تھی کوئی علاقہ ارگنائز نظر نہیں ارہا تھا شاید اس کی وجہ یہ بھی ہوگی ایک طرف تو سوویت یونین کی فوجیں ائی ہوئی ہیں افغانستان میں دوسری طرف پاکستان نے مجاہدین کی طرف سے خوب چڑھائی کی ہوئی ہے جو کہ کسی بہت بڑی جنگ کا پیش خیمہ تھی خیر سات ساڑھے سات گھنٹے کے بعد ہم جلال اباد پہنچے اور وہاں نجیب اللہ افغانستان کے سربراہ نے ہمارا استقبال کیا جس کی ایک جھلک میں نے دیکھی بھی ایک بہت ہی ہینڈسم ادمی جو کہ سب کو ہاتھ ملانا چاہ رہا تھا لیکن 50 ہزار لوگ تھے کس کس کو ہاتھ ملاتا میرا اور میرے ہم سفروں کا جوش و جذبہ اتنا بلند تھا کہ ہمیں دھماکوں کی اوازیں گولیوں کی اوازیں اور بموں کی اوازیں مسلسل ا رہی تھی لیکن ڈر تھا کہ ہمارے سے دور بھاگ گیا تھا اب اگر ہم میدان جنگ میں اگئے ہیں تو پھر ڈر کیسا ہم اپنی بس سے اتر کے تھوڑی ہی دور گئے تھے کوئی تقریبا تو ایک ہزار فٹ کے فاصلے پہ کہ ایک دھماکہ ہوا جو کہ اتنا زوردار تھا کہ ہم گر گئے بہت سارے لوگ ایک دوسرے کے اوپر گر گئے اس کی دھمک ایسی تھی کہ اچھے بھلے انسان کے ہوش اڑ جائیں جب کپڑے جھاڑ کے اٹھے تو فضا میں ایک گاڑی کے شاید کوئی بڑی گاڑی تھی بس تھی یا ٹرک تھا جس کے ٹائر کھڑکیاں اور اس کا انجر پنجر ہوا میں اڑتا ہوا نظر ا رہا تھا خیر وہ سین بھی بڑا عجیب تھا جس کو دیکھ کے کچھ دیر تو خوف سے بیٹھے رہے لیکن پھر اس کے بعد اپنے اپ کو اکٹھا کیا جو ہم پانچ سات لوگ تھے جو کہ فرنٹیئر پوسٹ سے اکٹھے بس میں بیٹھے تھے ہم لوگوں نے دوبارہ ایک دوسرے کا ہاتھ پکڑا اور خوب رش میں گھومتے گھماتے کوئی ہوٹل یا کوئی چھوٹی موٹی دکان دیکھ رہے تھے جہاں سے ہمیں کچھ کھانے پینے کے لیے مل جائے لیکن رش اتنا تھا کہ جو ہم اپنے ساتھ لے کے گئے تھے کوئی بسکٹ کچھ کھانے پینے کی چیزیں ہم نے اسی پہ گزارا کیا اور رات سر پہ اگئی جیسے تیسے ہم نے اپنی رات گزاری ہمارا ارادہ تھا کہ ہم کابل تک جائیں گے لیکن مجھے لگا کہ ہمارا واپس جانے کا سلسلہ بھی کہیں رک نہ جائے خیر صبح ہوتے ہی ہم نے اپنی بس کو تلاش کرنا شروع کیا تو ہمارے کچھ ساتھی جن کو پتہ تھا کہ ڈرائیور نے بس کہاں کھڑی کی تھی خیر ہم اپنی بس کو ڈھونڈتے رہے ہمیں اپنی بس نظر نہ ائی بلکہ ایک چھوٹی وین جو کہ ہمارے دوستوں میں سے کسی کی تھی اس نے ہم آٹھ لوگوں کو ساتھ لے جانے کا وعدہ کر لیا لیکن وہ اپنے ایک دوست کو ڈھونڈنا زیادہ ضروری سمجھتا تھا کیونکہ کل صبح اس کے ساتھ نکلا تھا ہم وین کے قریب ہی کھڑے ہو گئے اور کوشش کر رہے تھے کہ ہم اپنی بس تلاش کریں جس میں ہم ائے تھے اچانک ہمارا ایک دوست ہمارے سامنے ایا دور سے بھاگتا ہوا اور اس نے کہا کہ ہماری بس فلاں جگہ کھڑی تھی اور وہ جو ایک دھماکہ ہوا تھا کل ہمارے اتے ہی اور ایک وہیکل اسمان پہ اڑتی ہوئی نظر ارہی تھی جس کے کھڑکیاں دروازے ٹائر اور اس کے بہت سارے پرزہ جات ہوا میں اڑ رہے تھے وہ ہماری ہی بس تھی پہلے تو ہم یہ سوچ کے ڈر گئے کیا یہ بات سچ ہے واپسی پر اس بس کے چار مسافر ہی اس وین میں پشاور واپس آئے اور میں نے بہت کوشش کی آڈیٹر کو بھی بتایا لیکن اس بس کا کوئی مسافر نہ بتا سکا کہ وہ بس کدھر گئی اگر سچ ہے تو کہ ہم صرف پانچ سات منٹ پہلے اس بس پر سے اتر کے چند سو فٹ دور ہی گئے تھے کہ وہ بس دھماکے سے اڑا دی گئی اس کا مطلب یہ ہے کہ وہ پاور فل بم ہماری بس میں ہی کیری ہوا تھا ہماری بس میں کم از کم 50 55 لوگ تھے اور ان میں سے فارن صحافیوں سمیت لوکل صحافیوں کی تعداد بھی تھی ہو سکتا ہے وہ بس ہمارے پہنچے سے نکل گئی ہو؟ وہ کون سی وہیکل تھی جو ہمارے وہاں پہنچتے ہی بمارے سامنے اڑا دی گئی؟ ہم اس پر واپس کیوں نا آ سکے جس پر ہم سب گے تھے؟