عمران خان کی سکیورٹی پر تعینات اڈیالہ جیل کے ڈپٹی سپرنٹنڈنٹ سمیت تین اہلکار سکیورٹی اداروں کی تحویل میں

سکیورٹی اداروں نے اڈیالہ جیل میں سابق وزیر اعظم عمران خان کی سکیورٹی پر تعینات سابق ڈپٹی سپرنٹنڈنٹ پولیس کے علاوہ دیگر تین اہلکاروں کو اپنی تحویل میں لے لیا ہے۔ ان افسران پر سابق وزیر اعظم اور بانی پی ٹی آئی عمران خان کے لیے سہولت کاری کا الزام ہے۔

پنجاب کے محکمہ جیل خانہ جات کے ایک اہلکار نے نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر بی بی سی کو بتایا کہ حراست میں لیے جانے والے دیگر افراد میں ایک ڈپٹی سپرنٹینڈنٹ اور ایک اسسنٹ سپرینّینڈنٹ شامل ہیں۔

محکمہ جیل خانہ جات کے اہلکار کے مطابق اڈیالہ جیل سے ہٹائے گئے ڈپٹی سپرنٹنڈنٹ سے حاصل ہونے والی ابتدائی معلومات کی بنیاد پر مزید 6 ملازمین سے پوچھ گچھ کی جائے گی جس میں مزکورہ ڈپٹی سپرنٹینڈنٹ کے 2 اردلی، 3 وارڈر اور ہیڈ وارڈز بھی شامل ہیں۔

ان افراد کے بارے میں یہ تاثر عام ہے کہ وہ سابق ڈپٹی سپرنٹنڈنٹ پولیس کے نہ صرف قریبیساتھی تصور کیے جاتے ہیں بلکہ مبینہ طور پر مالی معاملات میں بھی پیش پیش ہوتے ہیں۔

محکمہ جیل خانہ جات کے اہلکار کے مطابق ان افراد کے زیرِ استعمال موبائل فونز کو بھی تحویل میں لیکر انھیں فرنزک کے لیے لیبارٹری میں بھجوا دیا گیا ہے اور ابتدائی رپورٹ کے مطابق حراست میں لیے گئے تین افراد کے موبائل سے کچھ یورپی ممالک کے نمبروں پر بنائے گئے واٹس ایپ نمبروں کا بھی معلوم ہوا ہے۔ جن میں سے کچھ موبائل نمبروں کے بارے میں کہا جارہا ہے کہ یہ نمبر پاکستان تحریک انصاف کے کچھ رہنماوں کے بھی ہیں جو اس وقت بیرون ملک مقیم ہیں۔

محکمہ جیل خانہ جات کے اہلکار کے مطابق حراست میں لیے جانے والے افراد کے پنجاب میں پی ٹی آئی کی حکومت میں رہنے والے سابق وزرا سے بھی قریبی تعلق رہا ہے۔

اہلکار کا کہنا ہے کہ حراست میں لیے جانے والے ڈپٹی سپرنٹینڈنٹ گزشتہ چار سال سے اڈیالہ جیل میں ہی تعینات تھے جبکہ مجموعی طور پر اپنی سروس کے 15 سال ان کی تعیناتی راولپنڈی کی اڈیالہ جیل میں ہی رہی ہے۔

سابق ڈپٹی سپرنٹنڈنٹ پولیس کو سابق وزیر اعظم عمران خان کی اٹک سے اڈیالہ جیل منتقلی کے بعد ان کی سیکورٹی پر تعینات کیا گیا تھا۔

٭ حکومتی دستاویزات کے مطابق اڈیالہ جیل میں سابق وزیر اعظم عمران خان کی زندگی کیسی ہے؟

اڈیالہ جیل میں مختلف مقدمات کی سماعت کے سلسلے میں عمران خان کو کمرہ عدالت میں پیش کرنے اور انھیں بیرک تک پہنچانے کی ذمہ داری بھی ڈپٹی سپرنٹینڈنٹ ہی کی ہوا کرتی تھی۔

سابق وزیر اعظم عمران خان کو اس سال کے آغاز میں سائفر کیس میں جب سزا سنائی جانی تھی تو عمران خان کمرہ عدالت سے اٹھ کر اپنی بیرک میں چلے گئے کیونکہ عمران خان کے بقول عدالت نے ان کا 342 کا بیان نہیں لیا تھا۔ عدالت کے حکم پر ڈپٹی سپرینٹینڈنٹ سابق وزیر اعظم کے پاس گئے اور عمران خان کے بقول مزکورہ افسر نے انھیں یہ کہہ کر عدالت میں واپس لانے کے لیے امادہ کیا کہ عدالت ان (عمران خان) کا بیان لینے کے لیے تیار ہے تاہم عمران خان جب کمرہ عدالت میں آئے تو عدالت نے انھیں اس مقدمے میں دس سال قید کی سزا سنا دی جس پر عمران خان نے کمرہ عدالت میں موجود صحافیوں کو مسکرا کر بتایا کہ ’ڈپٹی سپرنٹنڈنٹ پولیس نے دھوکا دے دیا۔‘

اڈیالہ جیل کے اہلکار کے مطابق ڈپٹی سپرنٹنڈنٹ پولیس کو چند ہفتے قبل ان کے عہدے سے ہٹا کر آفیسر ان سپیشل ڈیوٹی تعینات کیا گیا تھا۔

پنجاب کے محکمانہ جیل خانہ جات کے ایک اہلکار کے مطابق سکیورٹی اداروں نے اس معاملے میں کی جانے والی تحقیقات میں ہونے والی پیش رفت کے بارے میں متعقلہ حکام کو آگاہ کردیا ہے۔

اہلکار کے مطابق سابق ڈپٹی سپرنٹنڈنٹ پولیس سے تحقیقات جاری ہیں اور قصور وار پائے جانے کی صورت میں ان کے خلاف محکمانہ کارروائی کے ساتھ ساتھ قانونی کارروائی بھی عمل میں لائی جائے گی۔

واضح رہے کہ سابق وزیر اعظم عمران خان نے اڈیالہ جیل میں صحافیوں سے گفتگو کے دوران یہ الزام عائد کیا تھا کہ اڈیالہ جیل میں سکیورٹی اور ان سے ملاقاتوں کا شیڈول فوج کے ایک حاضر سروس کرنل کرتے ہیں۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button