کوئٹہ کا ریڈ زون سیل، ’بلوچ قومی اجتماع’ کے لیے گوادر جانے والے قافلے کو روک دیا گیا

بلوچ یکجہتی کمیٹی کے زیر اہتمام ’بلوچ قومی اجتماع‘ میں شرکت کے لیے صوبائی دارالحکومت کوئٹہ سے ساحلی شہر گوادر جانے والے قافلے کو روک دیا گیا ہے۔ جبکہ کوئٹہ کے ریڈ زون کو بھی سیل کر دیا گیا ہے۔
کوئٹہ کی حدود میں بعض شاہراہوں کو نہ صرف کنٹینر لگا کر بند کیا گیا ہے بلکہ پولیس کی بھاری نفری بھی موجود ہے۔ جبکہ قلات ڈویژن کے علاوہ مکران ڈویژن بالخصوص گوادر اور کراچی کے درمیان ساحلی شاہراہ پر بھی رکاوٹوں کی اطلاعات ہیں۔
بلوچ یکجہتی کمیٹی کی رہنما ڈاکٹر ماہ رنگ بلوچ کا کہنا ہے کہ لوگوں کو اس اجتماع میں شرکت سے روکنے کے لیے پورے بلوچستان میں رکاوٹیں کھڑی کردی گئی ہیں۔
تاہم سرکاری حکام کا کہنا ہے کہ کوئٹہ اور گوادر کے درمیان سکیورٹی کو برقرار رکھنے کے لیے مختلف اضلاع میں رکاوٹیں کھڑی کی گئی ہیں۔
بلوچستان کے وزیر اعلیٰ میر سرفراز بگٹی نے یہ سوال اٹھایا کہ بلوچ یکجہتی کمیٹی نے اس اجتماع کے لیے ’گوادر کا انتخاب کیوں کیا ہے؟‘
حکومت بلوچستان کے ترجمان شاہد رند نے کہا کہ چونکہ گوادر میں اجتماع کے انعقاد کی اجازت نہیں لی گئی ہے اس لیے بلوچ یکجہتی کمیٹی کے قافلوں کو گوادر جانے سے روک دیا گیا ہے۔
ڈپٹی کمشنر کوئٹہ سعد بن اسد کا کہنا ہے کہ کوئٹہ میں پہلے سے ہی دفعہ 144 نافذ ہے اور ریڈ زون میں کسی کو احتجاج اور ریلی کی اجازت نہیں ہے۔
ان کا کہنا ہے کہ شہر کے داخلی اور خارجی راستے پر کئی مقامات بند ہیں اور اب تک دفعہ 144 کی خلاف ورزی پر 140 افراد کو گرفتار کیا گیا ہے۔
’حکومت ہمِیں بلوچ قومی اجتماع منعقد نہیں کرنے دی رہی‘
بلوچ یکجہتی کمیٹی کی رہنما ڈاکٹر ماہ رنگ بلوچ گوادر پہنچ چکی ہیں۔
فون پر بی بی سی سے بات کرتے ہوئے انھوں نے کہا کہ آئینی اور قانونی طور پر گوادر سمیت بلوچستان میں پُرامن اجتماع کا انعقاد ’ہمارا حق ہے لیکن حکومت ہمیں گوادر میں اجتماع منعقد نہیں کرنے دی رہی ہے۔‘
انھوں نے کہا کہ ’ہم بلوچ قومی اجتماع گوادر میں ہی منعقد کریں گے اور اگر حکومت نے اس پُرامن اجتماع کے انعقاد میں رکاوٹ ڈال کر حالات کو خراب کیا تو اس کی تمام تر ذمہ داری حکومت پر ہی ہوگی۔‘
بلوچی قومی اجتماع کے انعقاد کا اعلان کئی ہفتے پہلے یکجہتی کمیٹی کے رہنماؤں ڈاکٹر ماہ رنگ بلوچ اور صبغت اللہ بلوچ عرف شاہ جی نے کیا تھا۔
اس میں افغانستان اور ایران سے تعلق رکھنے والے بلوچوں کو بھی شرکت کی دعوت دی گئی ہے۔
ڈاکٹر ماہ رنگ بلوچ نے الزام عائد کیا کہ اس وقت بلوچوں کی ’نسل کشی کے علاوہ ہزاروں افراد کو جبری طور پر لاپتہ کیا گیا ہے۔‘
ان کا کہنا تھا کہ بلوچوں کے انسانی حقوق کی پامالی کے علاوہ ان کے وسائل پر قبضہ کیا جا رہا ہے۔ ’اس پُرامن اجتماع کے انعقاد کا مقصد ان کی روک تھام کے لیے ایک لائحہ عمل اختیار کرنا ہے۔‘
ادھر بلوچ یکجہتی کمیٹی کے قافلوں کو گوادر جانے کی اجازت نہ دینے سے متعلق سوال پر حکومت بلوچستان کے ترجمان شاہد رند نے کہا کہ بلوچ یکجہتی کمیٹی نے گوادر میں اس اجتماع کے انعقاد کی اجازت نہیں لی ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ حکومت آئین اور قانون کے دائرے رہتے ہوئے کسی کو پر امن اجتماع کے انعقاد یا احتجاج کے انعقاد سے نہیں روکتی اور حکومت شہریوں کے اس حق کو تسلیم کرتی ہے لیکن شہریوں کو بھی حکومت کے حق اور اختیار کو تسلیم کرنا چاہیے۔