میمونہ حسین
میمونہ حسین

اگر ہم جمہوری ادوار کو بغور جائزہ لیں تو ہر دور میں جمہوری خدوخال کوئی تسلی بخش نہیں رہے اسی طرح اب سیاسی ماحول میں ایک تناؤ دکھائی دے رہا ہے۔بانی پی ٹی آئی اور ورکرز ریاست مخالف ایڈیشنل کمشنر کو آرڈی نیشن کمشنر آفیس روالپنڈی کو کریمینل کمپلینٹ فائل کا اختیار دیا،اب تک بانی پی ٹی آئی کو مختلف کیسیز کا سامنا ہے کیسیز سے بری ہوتے ہیں تو ایک نئی فائل کھل جاتی ہے ہمیشہ سے ارباب اختیار یہی کچھ کرتے چلے آرہے ہیں اور اب بھی ایسا ہی ہو رہا ہے۔
اب جو کیسیز پھر سے سامنے آرہے ہیں وہ کچھ یوں ہیں پی پی سی سیکشن 121، 121 اے،123 اے، 131،153 کے تحت کارروائی کی سفارش، کریمنل لاایکٹ کے تحت غیر قانونی جماعت قرار، کریمنل پروسیڈنگ کوڈ کا بھی اطلاق۔اب ان تمام لاء کے تحت پی ٹی آئی کے گرد ایک ایسا بیرئیر لگایا جا رہا ہے کہ مکمل طور پہ اس جماعت کو ہی بین کر دیا جائے۔اگر ہم زمینی حقائق دیکھیں تو صورتحال یکسر مختلف ہے پی ٹی آئی کے فین فالورز،ووٹرز،سپورٹرز میں بے انتہا اضافہ ہو چُکا ہے۔اس پہ اگر میں روشنی ڈالوں تو بانی پی ٹی آئی نے جو جیل میں رہتے سزا کو پورا کیا جس سے پاکستانی عوام اور اُن کے مداحوں پہ پوزیٹو اثر ہوا۔
تمام کیسیز کے بعد جو ایک بعد کو ذیادہ ڈسکس اور ہوا دی جا رہی ہے کہ بانی پی ٹی آئی کے میڈیا ٹاک، قومی اداروں، عدلیہ، سینئر افسران کیخلاف جھوٹے بیانات پر کیس بنیں گے، صورتحال کی مشرقی پاکستان سے تشبیہ، عوام میں منفی پروپیگنڈہ پیدا ہوا۔اب جس بات کو لے کے ایک ہنگامہ ہو رہا ہے تو دلچسپ بات بتاتی چلوں کہ 2011میں وہ اپنے انٹر ویو میں بہت سی ایسی باتیں کر چُکے ہیں اُس کے بعد اُنہوں نے اقتدار کو بھی انجوائے کیا۔
لاہور (خبر نگار خصوصی، مانیٹرنگ ڈیسک) پنجاب کا بینہ کی دستاویزات کے مطابق بانی پی ٹی آئی کے ریاست مخالف بیانیے پر پنجاب حک ب حکومت کار روائی کی منظوری کی تفصیلات سامنے آگئیں، دستاویزات میں الزام عائد کیا گیا ہے کہ بانی پی ٹی آئی پاکستان کو توڑنے کی منتظم
سازش کر رہے ہیں۔ سیاسی مقاصد کے لیے بانی پی ٹی آئی، پی ٹی آئی ورکر ز ریاست مخالف کام کر رہے ہیں۔ جہاں بانی پی ٹی آئی موجودہ صورتحال کو مشرقی پاکستان اور 1971 کی سیاسی صورتحال سے تشبیہ دے رہے ہیں۔
میں اسی بات پہ رہتے ہوئے تھوڑا روشنی ڈالوں گی کیونکہ ہماری عوام بہت جلد بھول جاتی ہے یاد کریں جب نواز شریف کی جن مجھے کیوں نکالا کی سیریز چل رہی تھی 17ستمبر 2017کو نواز شریف نے بیان دیاجب اُنہیں مداخلت اور مشکلات کا سامنا تھا اُس وقت نواز شریف کے یہ الفاظ تھے کہ مجھے مجبور نہ کیا جائے کہ مشرقی پاکستان جیسے شیخ مجیب الرحمان جیسی راہ اختیار کر وں لاہور جلسے کی تقاریر میں بھی اداروں کے خلاف بیان ملتے ہیں اس لئے انصاف کا تقاضہ یہی کہتا ہے کہ ان سب پہ کاروائی ہو۔
پی ٹی آئی جماعت کے ترجمان نے ٹی وی کے ایک پروگرام میں کہا کہ انہیں اطلاعات مل رہی ہیں کہ پی ٹی آئی پر پابندی لگائی جارہی ہے، دو برس سے مسلسل ہونے والے حکومتی اقدامات ان اطلاعات کی توثیق کرتے ہیں۔
پاکستان میں پی ٹی آئی پر پابندی لگائی جا رہی ہے۔ یہ پابندی کچھ مہینوں سے نافذ ہے اور اس کے پیچھے کئی وجوہات ہیں:
سیاسی مخالفت اور حکومت کے خلاف احتجاج: پی ٹی آئی کے سربراہ عمران خان اور ان کی پارٹی حکومت کے خلاف شدید مخالفت کر رہے ہیں اور ملک میں عدم استحکام پھیلا رہے ہیں۔ حکومت کا موقف ہے کہ پی ٹی آئی کی سیاسی سرگرمیاں قانون و نظام کو خطرے میں ڈال رہی ہیں۔
سماجی میڈیا پر نفرت انگیز مواد: پی ٹی آئی کے کارکنان اور حامی سماجی میڈیا پر حکومت اور اداروں کے خلاف نفرت انگیز مواد شیئر کر رہے ہیں۔ حکومت کا کہنا ہے کہ یہ قومی سلامتی کے لیے خطرناک ہے۔
قانون و نظام کی خلاف ورزی: پی ٹی آئی کے کچھ کارکنان قانون و نظام کی خلاف ورزیاں کر رہے ہیں اور ملک میں فساد پھیلا رہے ہیں۔ حکومت کا موقف ہے کہ ان پر پابندی ضروری ہے۔
پاکستان ٹیلی کمیونیکیشن اتھارٹی (پی ٹی اے) نے عدالت میں پیش کردہ دستاویزات میں اعتراف کیا ہے کہ ایکس (پرانے ٹوئٹر) پر پابندی کا حکم وفاقی وزارت داخلہ نے دیا تھا۔
پاکستان کی حکومت پی ٹی آئی پر پابندی عائد کرنے پر غور کر رہی ہے۔ وزیراعظم کے مشیر رانا ثناء اللہ خان کے مطابق، پی ٹی آئی سیاسی جماعت کی حیثیت سے کام کرنے کے لئے اپنا استحقاق کھو چکی ہے۔ پارلیمنٹ کی متفقہ قرارداد کی روشنی میں، پی ٹی آئی کو غیر قانونی جماعت قرار دے کر اس کی سرگرمیوں پر پابندی عائد کرنے کا فیصلہ کسی بھی وقت ہو سکتا ہے۔ اس سلسلے میں موزوں وقت پر سپریم کورٹ میں ریفرنس دائر کیا جائے گا۔ رانا ثناء نے کہا ہے کہ 9 مئی کے واقعات کے بارے میں کابینہ کمیٹی کی رپورٹ سے ثابت ہو چکا ہے کہ پی ٹی آئی نے 9 مئی کے ملک گیر حملوں کے لئے مکمل منصوبہ بندی کر رکھی تھی
بیرون ملک پناہ لینے والے پاکستانیوں کو پاسپورٹ جاری کرنے پر پابندی کے نوٹی فکیشن کو سپریم کورٹ آف پاکستان میں چیلنج کر دیا گیا ہے۔ ایڈووکیٹ صائم چوہدری نے 184(3) کے تحت درخواست دائر کی ہے، جس میں وفاقی حکومت اور ڈی جی پاسپورٹ کو فریق بنایا گیا ہے۔ اس طرح، پاسپورٹ جاری کرنے پر پابندی کے فیصلے کو سپریم کورٹ میں چیلنج کیا جا سکتا ہے۔
یہاں پہ بھی میں اگر بات کروں کہ پابندی کی طرف کیوں ایک ہی جماعت سٹپٹا رہی ہے حقائق یہ ہیں کہ عوام میں غیر مقبول اور بیڈ گورنس جیسے معاملات سے حکومتی ارکان پریشان ہیں اگر ایک بار بانی پی ٹی آئی جیل سے باہر آتے ہیں اور ان کی سیاسی سرگرمیاں طول پکڑ جائیں گی جس سے (ن) لیگ کو سیاسی مسائل کا سامنا ہو گا اسی پریشانی کیوجہ سے وہ خوفزدہ ہیں۔
کیا اس پابندی کو لگائے جانے کا کوئی معاشی اثر ہوگا؟
جی ہاں، پی ٹی آئی پر سماجی میڈیا پر پابندی کا معاشی اثرات بھی ہوسکتے ہیں۔ اگرچہ یہ اثرات کچھ حد تک محدود ہوں گے لیکن کچھ طریقوں سے معاشی نقصان ہوسکتا ہے:
سرمایہ کاری میں کمی: پی ٹی آئی پر پابندی سے ملک میں سیاسی عدم استحکام بڑھ گیا ہے۔ سرمایہ کاروں کو اس طرح کی سیاسی عدم استحکامی سے خوف ہوتا ہے جس سے ملک میں سرمایہ کاری میں کمی آسکتی ہے۔
سیاحت متاثر ہوسکتی ہے: پاکستان میں سیاسی عدم استحکامی سے سیاحت بھی متاثر ہوسکتی ہے۔ سیاحوں کو ملک میں امن و امان کی صورتحال پر شک ہوتا ہے جس سے سیاحت کے شعبے پر اثر پڑتا ہے۔
روزگار کے مواقع میں کمی: سیاسی عدم استحکامی سے ملک میں روزگار کے مواقع بھی متاثر ہوسکتے ہیں۔ کاروباری سرگرمیوں میں کمی سے روزگار کے مواقع بھی کم ہوسکتے ہیں۔