فیض حمید آخری لمحے تک فوج کے سربراہ بننے کی دوڑ دھوپ کرتے رہے: وزیر دفاع خواجہ آصف

پاکستان کے وزیر دفاع خواجہ محمد آصف نے دعویٰ کیا ہے کہ ریٹائرمنٹ لینے سے قبل سابق لیفٹیننٹ جنرل فیض حمید فوج کے سربراہ بننے کے خواہاں تھے اور انھوں نے اس حوالے سے بہت کوششیں بھی کیں۔

خواجہ آصف کے مطابق فوج کے سابق سربراہ قمر جاوید باجوہ بھی جنرل فیض کے لیے ان سے اور ان کی پارٹی کی قیادت سے مسلسل رابطے میں رہے اور تعاون کی درخواست کرتے رہے۔

جیو نیوز کے پروگرام آج شاہزیب خانزادہ کے ساتھ گفتگو کرتے ہوئے خواجہ آصف نے کہا کہ فیض حمید یہ کہتے تھے کہ ’میرے سر پر ہاتھ رکھیں۔‘ ان کے مطابق جنرل باجوہ کے سسر سابق جنرل اعجاز احمد اور جنرل فیض کے سسر ریٹائرڈ برگیڈیئر فاروق اعوان کے بھی آپس میں گہرے تعلقات تھے۔ ان کے مطابق ’دونوں داماد (جنرل باجوہ اور جنرل فیض) اور دونوں سسر (ریٹائرڈ جنرل اعجاز احمد اور بریگیڈیئر فاروق اعوان) کی آخری لمحے تک کوشش تھی کہ جنرل فیض آرمی چیف بن جائیں۔‘

* ’کورٹ مارشل کا عمل شروع‘: آئی ایس آئی کے سابق سربراہ فیض حمید کے خلاف کارروائی کیسے ہوگی؟

* کیا پاکستانی وزیر اعظم آئی ایس آئی سے خوفزدہ ہوتے ہیں؟

ان کے مطابق تعیناتی کے مشکل 24 گھنٹے پہلے جنرل باجوہ نے کہا کہ ’چلیں ٹھیک ہے پھر جو آپ کہتے ہیں کر لیتے ہیں مگر آرمی چیف عاصم منیر کو نہیں بلکہ اس بندے کو لگا دیں۔‘ انھوں نے کہا کہ یہ کہنا درست ہے کہ جنرل باجوہ نے یہ کہا تھا کہ فیض حمید کے نام سے وہ پیچھے ہٹ جاتے ہیں اور عاصم منیر کے نام سے نواز شریف اور شہباز شریف پیچھے ہٹ جائیں۔

خواجہ آصف کے مطابق جنرل باجوہ نے جنرل فیض حمید کے لیے کوششیں آخری تین چار دن پہلے ترک کر دیں تھیں۔ وزیر دفاع کے مطابق جنرل باجوہ نے یہ کہا تھا کہ ’آپ (مسلم لیگ ن کی قیادت) بھی اپنی ضد چھوڑیں، فلاں بندے کو تعینات کر دیں۔‘

وزیر دفاع کے مطابق وہ ہیلی کاپٹر میں بیٹھ کر ان ملاقاتوں کے لیے جاتے تھے اور ان کے گواہ اس وقت پنجاب اسمبلی کے سپیکر احمد علی خان ہیں جو ان کے ساتھ جنرل باجوہ سے ہونے والی ملاقاتوں میں موجود ہوتے تھے۔

ان کے مطابق ’نواز شریف کو ’انفلوئنس‘ کرنے کے لیے بہت کوششں کی گئیں۔‘

ریٹائرمنٹ کے بعد جنرل فیض کا سیاسی منظرنامے میں کردار تھا: وزیر دفاع

Faiz Hameed

خواجہ آصف نے کہا کہ اپنی ریٹائرمنٹ کے بعد سیاسی افق پر جو واقعات ہوئے، اس میں جنرل فیض کا ضرور ہاتھ ہے، وہ باز نہیں آ سکتے تھے کیونکہ جس شخص نے اتنی لامحدود اختیارات استعمال کی ہوں، اسے بیک سیٹ لینی پڑے تو اسے یہ ہضم نہیں ہوتا۔‘

ایک سوال کے جواب میں انھوں نے کہا کہ یہ سب کام ’جنرل فیض اکیلے کا نہیں ہو گا۔ جنرل فیض اپنی سازشوں کا تجربہ ضرور شیئر کیا ہوگا، ہدف دیے ہوں گے، سٹریٹجک ایڈوائزر کے طور پر رول رہا ہو گا، حالات واقعات ان کی طرف اشارہ بھی کرتے ہیں۔‘

* فیض حمید: ایک ’متحرک جنرل‘ جن کا کریئر تنازعات میں گھرا رہا

* ’اٹھو، اٹھو جنرل فیض آ رہے ہیں‘

خواجہ آصف کے مطابق فوج میں قانون کا نفاذ بہت مؤثر ہے۔ ایک اور سوال کے جواب میں انھوں نے تسلیم کیا کہ جنرل فیض کی سنہ 2017 سے ’سیاست میں جو مداخلت رہی ہے تو یہ بات ہے ککہ سیاسی سٹریٹجی میں پھر چیزیں اس طرح ’بلیک اینڈ وائٹ‘ نہیں رہتیں۔‘

خواجہ آصف نے کہا کہ جنرل باجوہ کے گھر پر ان کی جو جنرل فیض اور جنرل باجوہ سے ملاقاتیں ہوتی تھیں ان میں سے ایک ملاقات میں خود ’جنرل فیض نے کہا کہ ہم اس وزیر اعظم (عمران خان) سے تنگ آ چکے ہیں۔‘

خواجہ آصف نے کہا کہ انھوں نے جنرل فیض کو بتایا کہ مسلم لیگ ن جنرل باجوہ کی مدت ملازمت میں توسیع کے لیے پارلیمنٹ میں بلامشروط ووٹ دے گی۔ تاہم وزیر دفاع کے مطابق جنرل فیض حمید نے انھیں بتایا کہ ’چلیں جون تک آپ کو پنجاب دیں گے، دسمبر تک ان (عمران خان) سے بھی جان چھڑا لیں گے۔‘

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button