مخصوص نشستوں کا معاملہ: الیکشن کمیشن کا سپریم کورٹ کے فیصلے پر عمل درآمد کا فیصلہ، پی ٹی آئی کو نشستیں ملنے میں مزید کیا رکاوٹیں آ سکتی ہیں؟
الیکشن کمیشن نے مخصوص نشستوں سے متعلق سپریم کورٹ کے فیصلے پر عمل درآمد کرنے کا اعلان کیا ہے۔
تاہم الیکشن کمیشن کے اجلاس میں لیگل ٹیم کو ہدایات جاری کی گئی ہیں کہ اگر سپریم کورٹ کے فیصلے کے کسی پوائنٹ پر عملدرآمد میں رکاوٹ ہے تو اس کی نشاندہی کریں تاکہ مزید رہنمائی کے لیے سپریم کورٹ سے رجوع کیا جائے۔
اجلاس کے بعد جاری کردہ پریس ریلیز میں کہا گیا ہے کہ الیکشن کمیشن ایک سیاسی پارٹی کی طرف سے چیف الیکشن کمشنر اور ممبران الیکشن کمیشن کو مسلسل اور بے جا تنقید کا نشانہ بنانے کی مذمت کرتا ہے۔ کمشین کا کہنا ہے کہ وہ کسی قسم کے دباو کو خاطر میں نہ لاتے ہوئے آئین اور قانون کے مطابق کام کرتا رہے گا۔
مزید یہ بھی کہا گیا ہے کہ الیکشن کمیشن نے کسی فیصلے کی غلط تشریح نہیں کی ’الیکشن کمیشن نے پی ٹی آئی کے انٹرا پارٹی الیکشن کو درست قرار نہیں دیا جس کے خلاف پی ٹی آئی مختلف فورمز پر گئی اور الیکشن کمیشن کے فیصلے کو برقرار رکھا گیا۔‘ کمیشن کا کہنا ہے کہ چونکہ پی ٹی آئی کے انٹراپارٹی الیکشن درست نہیں تھے جس کے قانونی اثرات کی رو سے الیکشنز ایکٹ کی دفعہ 215 کے تحت بیٹ کا نشان واپس لیا گیا لہذا الیکشن کمیشن پر الزام تراشی انتہائی نامناسب ہے۔
الیکشن کمیشن کا کہنا ہے کہ جن 39 ایم این ایز کو پی ٹی آئی کا قرار دیا گیا ہے انھوں نے اپنے کاغذات نامزدگی میں پی ٹی آئی سے اپنی وابستگی ظاہر کی تھی جبکہ کسی بھی پارٹی کا امیدوار ہونے کے لیے پارٹی ٹکٹ اور ڈیکلیریشن ریٹرننگ آفیسر کے پاس جمع کروانا ضروری ہے جو کہ ان امیدواروں نے جمع نہیں کروایا تھا۔ لہذا ریٹرننگ آفیسروں کے لیے یہ ممکن نہیں تھا کہ وہ انھیں پی ٹی آئی کا امیدوار قرار دیتے۔
کمیشن کا مزید کہنا ہے کہ جن 41 امیدواروں کو آزاد ڈیکلیئر کیا گیا ہے انھوں نے نہ تو اپنے کاغذات نامزدگی میں پی ٹی آئی کا ذکر کیا، نہ پارٹی سے وابستگی ظاہر کی اور نہ ہی کسی پارٹی کا ٹکٹ جمع کروایا لہذا ریٹرننگ افسروں نے انھیں آزاد حیثیت میں الیکشن میں حصہ لینے کی اجازت دی۔
کمیشن کا کہنا ہے کہ الیکشن جیتنے کے بعد قانون کے تحت تین دن کے اندر ان ایم این ایز نے رضاکارانہ طور پر سنی اتحاد کونسل میں شمولیت اختیار کی، سپریم کورٹ میں سنی اتحاد کونسل الیکشن کمیشن اور پشاور ہائیکورٹ کے فیصلے کے خلاف اپیل میں آئی جو مسترد کردی گئی۔
کمیشن کا مزید کہنا ہے کہ پی ٹی آئی اس کیس میں نہ تو الیکشن کمیشن میں پارٹی تھی اور نہ ہی پشاور ہائیکورٹ کے سامنے پارٹی تھی اور نہ ہی سپریم کورٹ میں پارٹی تھی۔
یاد رہے گذشتہ جمعے کو چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کے سربراہی میں 13 رکنی بینچ نے مخصوص نشستوں سے متعلق سنی اتحاد کونسل کی اپیل اکثریت رائے سے منظور کر لی تھی۔
سپریم کورٹ نے اپنے فیصلے میں کہا تھا کہ پاکستان تحریک انصاف کے منتخب امیدواروں کو کسی اور جماعت کا رکن قرار نہیں دیا جا سکتا اور پی ٹی آئی ہی مخصوص نشستوں کے حصول کی حقدار ہے۔ یوں اب تحریک انصاف سیاسی جماعت بن کر حزب اختلاف کی جماعت بن گئی ہے اور ایسی حزب اختلاف کہ جس کے پاس کسی بھی نشستوں کی تعداد کسی بھی جماعت سے زیادہ ہو سکتی ہے۔
سنی اتحاد کونسل کی جانب سے پشاور ہائی کورٹ کے فیصلے کے خلاف دائر کی گئی اپیل کو آٹھ ججز نے منظور کیا جبکہ پانچ ججز نے اکثریتی فیصلے سے اختلاف کیا تھا۔
خیال کیا جا رہا ہے کہ سپریم کورٹ کے فیصلے کے بعد تحریک انصاف جن نشستوں پر دعوے کرتی آ رہی ہے وہ ملنے کی صورت میں قومی اسمبلی میں اس کی 84 نشستیں بڑھ کر 107 ہو جائیں گی اور یوں یہ سب سے زیادہ نشستوں والی جماعت بن سکے گی۔ اس کے مقابلے میں حکومتی جماعت مسلم لیگ ن کے پاس 106، پاکستان پیپلز پارٹی کے پاس 69، ایم کیو ایم کے پاس 22 اور جمیعت علمائے اسلام کے پاس نو نشستیں ہوں گی۔