اسلام آباد سے جماعت اسلامی کے متعدد کارکنان گرفتار: ’حکومت حافظ نعیم سے مذاکرات کے لیے تیار ہے‘، وفاقی وزیراطلاعات عطااللہ تارڑ

وفاق دارالحکومت میں جماعت اسلامی کے دھرنے کے حوالے سے اسلام آباد پولیس نے ڈی چوک سے متعدد کارکنان کو گرفتار کر لیا ہے جبکہ مزید گرفتاریوں کا سلسلہ جاری ہے۔ ترجمان جماعت اسلامی کے مطابق اگر کارکنوں کو فی الفور رہا نہ کیا گیا تو حالات کی ذمہ دار حکومت ہوگی۔
تفصیلات کے مطابق گرفتار کارکنان کو قیدی وین میں منتقل کر دیا گیا ہے جبکہ ڈی چوک آنے والے راستوں کو پولیس و انتظامیہ نے کنٹینر لگا کر بند کر دیا ہے۔
جماعت اسلامی کے امیر حافظ نعیم الرحمان نے اسلام آباد کے علاقے ایچ 8 میں مظاہرین سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ ان کے احتجاج کا مقصد ملک میں بڑھتی ہوئی مہنگائی کو کم کرنا ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ ’پاکستان کا پیسہ بچانا ہے، بجلی کے بِل کم کرنے ہیں، لوگوں کو ریلیف دِلوانا ہے، ہم اس ایجنڈے کے ساتھ آئے ہیں۔‘
حکومت نے اعلان کیا ہے کہ وہ جماعت اسلامی سے مذاکرات کے لیے تیار ہے اور جو نظام میں رہ کر بہتری لائی جا سکتی ہے وہ ضرور لائیں گے۔
وفاقی وزیراطلاعات عطااللہ تارڑ نے وفاقی وزیر امیر مقام کے ہمراہ پریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ جماعت اسلامی کو راولپنڈی کے لیاقت باغ میں احتجاج کی اجازت دی گئی تھی، اسلام آباد کی طرف پیشقدمی سمجھ نہیں آتی۔ یہاں لوگوں کی زندگی متاثر ہوتی ہے۔‘
انھوں نے کہا کہ ’ڈی چوک میں کسی صورت اجازت نہیں دی جا سکتی۔ یہاں حساس تنصیبات ہیں، دفاتر ہیں۔ البتہ لیاقت باغ میں سکیورٹی بھی دیں گے۔‘
وزیر اطلاعات کے مطابق ڈی چوک میں احتجاج کا کلچر ختم کرنا ہو گا۔ ان کے مطابق ’جماعت اسلامی کے امیر حافظ نعیم ہمارے لیے بہت قابل احترام ہیں ان سے بیٹھ کر بات کرنے کو تیار ہیں۔‘
ان کے مطابق وہ خود، طارق فضل چوہدری اور امیر مقام پر مشتمل کمیٹی جماعت اسلامی سے مذاکرات کرے گی۔ انھوں نے کہا کہ ’عام شہریوں کی زندگی کو اجیرن بنانے کا کوئی فائدہ نہیں ہے۔‘
اس وقت اسلام میں شہر کے داخلی راستوں پر بھی کنٹینرز رکھ دیے گئے ہیں جبکہ شہر کی اہم شاہراہوں اور چوراہوں پر ٹریفک کے لیے صرف ایک لائن کھلی رکھی گئی ہے۔ ایک لائن کھولنے کی وجہ سے سڑکوں پر گاڑیوں کی لمبی قطاریں لگ گئیں جبکہ شہری شدید پریشان ہیں۔
فیض آباد پر پولیس کی بھاری نفری تعینات ہے جبکہ واٹر کینن اور آنسو گیس سے لیس پولیس نفری فیض آباد پہنچا دی گئیں۔
دھرنے کے شرکا سے نمٹنے کے لیے آپریشنل پولیس کو پولیس لائنز سے 10 ہزار آنسو گیس کے شیل جاری کر دیے گئے جبکہ زیرو پوائنٹ پل کے نیچے دو لینز کھول کر باقی کنٹینرز لگا دیے گئے، تین سرکاری اسپتالوں کے سربراہان کو شعبہ ایمرجنسی سوموار تک ہائی الرٹ رکھے کی ہدایت کی گئی۔