ایکُ عہد تمام ہوا

فسوس ۔ایکُ عہد تمام ہوا ۔آفتاب اقبال شمیم آج ہم سے جدا ہوگئے
اردو کے ادیب، صحافی، ماہر تعلیم اور دانشور جناب آفتاب اقبال شمیم 16 فروری 1936ء کو جہلم میں پیدا ہوئے، راولپنڈی سے اعلیٰ تعلیم حاصل کی، مختلف اخبارات اور ریڈیو پاکستان کے ساتھ منسلک رہے۔ 1972ء میں بیجنگ یونیورسٹی (چین) کے شعبہ اردو سے منسلک ہوئے جہاں انہوں نے اگلے کئی برس تک تدریس کی آپ اردو کے اہم نظم گو شاعروں میں شمار ہوتے تھے ان کے شعری مجموعوں میں فردا نژاد، زید سے مکالمہ، گم سمندر اور میں نظم لکھتا ہوں کے نام شامل ہیں۔ حکومت پاکستان نے انہیں 14 اگست 2005ء کو صدارتی تمغہ برائے حسن کارکردگی عطا کیا تھا۔ آپ اسلام آباد میں قیام پذیر تھے
….

May be an image of 1 person

اک چادرِ بوسیدہ میں دوش پہ رکھتا ہوں
اور دولتِ دنیا کو پاپوش پہ رکھتا ہوں
کیفیت ِ بے خبری کیا چیز ہے کیا جانوں
بنیاد ہی ہونے کی جب ہوش پہ رکھتا ہوں
جو قرض کی مے پی کر تسخیرِ سخن کر لے
ایماں اُسی دلی کے مے نوش پہ رکھتا ہوں
آنکھوں کو ٹکاتا ہوں ہنگامہ دنیا پر
اور کان سخن ہائے خاموش پہ رکھتا ہوں
میں کون ہوں! ازلوں کی حیرانیاں کیا بولیں
اک قرض ہمیشہ کا میں گوش پہ رکھتا ہوں
۔
آرا کش نے
الف انا کو کاٹ دیا
اپنے سائے پر اوندھا گرنے والا
میں تھا لیکن کیا کرتا
میرے شہر کی ساری گلیاں
بند بھی تھیں متوازی بھی
تختیاں ہر دروازے پر
ایک ہی نام کی لٹکی تھیں
میں کیا کرتا
شہر کے گردا گرد سدھائے فتووں کی دیواریں تھیں
کوہ شمائل دیواریں
جن سے باہر صرف جنازوں کے جانے کا رستہ تھا

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button