بنگلہ دیش میں حکومت مخالف مظاہروں میں پولیس اہلکاروں سمیت کم از کم 59 افراد ہلاک، غیر معینہ مدت کے لیے کرفیو نافذ

بنگلہ دیش میں حکومت مخالف مظاہرین اور پولیس کے درمیان اتوار کو ہونے والی حالیہ جھڑپوں میں کم از کم 59 افراد ہلاک ہو گئے ہیں جن میں 13 پولیس والوں کو بھی ہلاک ہو گئے ہیں۔ مظاہرین کا مطالبہ ہے کہ وزیر اعظم حسینہ واجد اپنے عہدے سے فوری مستعفی ہوں۔

بنگلہ دیش میں کشیدگی کی تازہ ترین لہر طلبہ رہنماؤں کی جانب سے حکومت کے خلاف سول نافرمانی کی مہم کے اعلان کے بعد شروع ہوئی ہے۔

بنگلہ دیش کے کئی حصوں میں پولیس نے مظاہرین کو منتشر کرنے کے لیے آنسو گیس اور ربڑ کی گولیوں کا استعمال کیا ہےجس میں 200 کے قریب افراد زخمی ہو گئے ہیں۔

دارالحکومت ڈھاکہ میں اس وقت موبائل فونز پر انٹرنیٹ کی سہولت معطل کر دی گئی ہے۔

انٹرنیٹ کی سہولت فراہم کرنے والی بعض کمپنیوں نے مقامی میڈیا کو بتایا کہ حکومت کی جانب سے احکامات موصول ہونے پر انھوں نے سروسز معطل کی ہیں۔

بنگلہ دیش ٹیلی کمیونیکیشن ریگولیٹری کمیشن (بی ٹی آر سی) کے ایک اہلکار نے بی بی سی بنگلہ کو بتایا ہے کہ ڈھاکہ کے علاقے میں فور جی انٹرنیٹ سروس فی الحال بند ہو گئی ہے، لیکن براڈ بینڈ سروس جاری رہے گی۔

یاد رہے کہ انٹرنیٹ کی فور جی اور تھری جی سروسز کے بغیر لوگ اپنے موبائل آلات پر انٹرنیٹ کا استعمال کرتے ہوئے رابطہ نہیں کر سکتے۔

تاہم یہ نہیں بتایا گیا کہ انٹرنیٹ خدمات کب تک معمول پر آئیں گی۔اتوار کو مقامی وقت کے مطابق شام چھ بجے سے کرفیو کا اعلان کیا گیا ہے۔ مقامی میڈیا رپورٹس کے مطابق کرفیو غیر معینہ مدت تک نافذ رہے گا۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button