فیض حمید اور تحریکِ انصاف: آئی ایس آئی کے سابق سربراہ کے خلاف کارروائی کے اعلان کے بعد عمران خان کی جماعت کا نام بار بار کیوں لیا جا رہا ہے؟

پاکستان کی فوج کی جانب سے ملک کے خفیہ ادارے آئی ایس آئی کے سابق سربراہ لیفٹیننٹ جنرل (ریٹائرڈ) فیض حمید کی فوجی تحویل اور ان کے خلاف فیلڈ جنرل کورٹ مارشل کی کارروائی شروع کیے جانے کے بیان نے ملک کی سیاست میں ہلچل پیدا کر دی ہے۔
پیر کو آئی ایس پی آر کی جانب سے جاری بیان میں سپریم کورٹ آف پاکستان کے احکامات کی تعمیل کرتے ہوئے فیض حمید کے خلاف ایک تفصیلی ’کورٹ آف انکوائری‘ کے نتیجے میں پاکستان آرمی ایکٹ کی دفعات کے تحت فیض حمید کے خلاف ’مناسب تادیبی کارروائی شروع کرنے اور فیض حمید کے ’ریٹائرمنٹ کے بعد پاکستان آرمی ایکٹ کے خلاف ورزی‘ کی بات کی گئی۔
آئی ایس آئی کے سابق سربراہ کے خلاف کارروائی کے اعلان کے بعد سے سیاسی و سماجی حلقوں میں فوج میں احتسابی عمل، فوجی افسران کے سیاست میں کردار اور سیاسی جماعتوں کے ساتھ تعلقات پر بحث نے زور پکڑا ہے۔
اگرچہ آئی ایس پی آر کے بیان میں کسی سیاسی جماعت یا سیاستدان کا ذکر تو نہیں کیا گیا مگر یہ بیان سامنے آنے کے بعد متعدد صحافی و تجزیہ کار ٹی وی چینلز پر اپنے تجزیوں میں سابق وزیراعظم عمران خان کی جماعت پاکستان تحریکِ انصاف (پی ٹی آئی) اور لیفٹیننٹ جنرل (ر) فیض حمید کے قریبی تعلقات کا ذکر بھی کرتے دکھائی دیے۔
خیال رہے کہ سنہ 2018 کے انتخابات کے بعد عمران خان نے ملک میں اتحادی حکومت قائم کی اور 2019 میں لیفٹیننٹ جنرل فیض حمید کو خفیہ ایجنسی آئی ایس آئی کا سربراہ مقرر کر دیا گیا تھا۔ بطور ڈی جی آئی ایس آئی فیض حمید پی ٹی آئی اور اس وقت کے وزیرِاعظم عمران خان کے بہت قریب سمجھے جاتے تھے اور اس قربت کا تاثر خود عمران خان اور ان کے مخالفین کے متعدد بیانات سے بھی مضبوط ہوا۔
پی ٹی آئی اور فیض حمید کے تعلقات کیسے تھے؟
پاکستان کے سیاسی منظرنامے پر نظر رکھنے والے تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ پی ٹی آئی کے دورِ حکومت میں عمران خان اکثر اس وقت کے ڈی جی آئی ایس آئی لیفٹیننٹ جنرل (ر) فیض حمید کے حوالے سے بات کرتے ہوئے نظر آتے تھے اور یہی وجہ ہے کہ آج بھی ان کے ساتھ پی ٹی آئی کا نام منسوب کیا جاتا ہے۔
عمران خان کے دور اقتدار کے آخری چند ماہ کے دوران ڈی جی آئی ایس آئی کی تبدیلی سے متعلق معاملے پر فوج اور ان کی حکومت کے تعلقات میں تلخیاں پیدا ہونے کی خبریں بھی سامنے آئی تھیں اور عمران خان نے بعدازاں اپنی حکومت کے خاتمے میں اس مبینہ تنازعے کو بھی ایک وجہ قرار دیا تھا۔
جب اپریل 2022 میں سابق وزیر اعظم عمران خان کی حکومت کو تحریکِ عدم اعتماد کے ذریعے ختم کیا گیا تو اس کے کچھ عرصہ بعد مئی 2022 میں عمران خان نے ایک پاڈکاسٹ میں کہا تھا کہ انھیں پہلے ہی معلوم ہو چکا تھا کہ اس وقت کی اپوزیشن پی ٹی آئی کی حکومت کو ہٹانا چاہتی ہے۔
عمران خان نے اس انٹرویو میں اپنے خلاف تحریکِ عدم اعتماد کا حوالہ دیتے ہوئے کہا تھا کہ ’اس لیے میں نہیں چاہتا تھا کہ ہمارے انٹیلیجنس چیف تبدیل ہو جب تک یہ سردیاں نہ گزر جائیں کیونکہ انٹیلی جنس چیف حکومت کی آنکھیں اور کان ہوتا ہے۔‘
خیال رہے لیفٹیننٹ جنرل (ریٹائرڈ) فیض حمید کو 2021 میں آئی ایس آئی کے سربراہ کے عہدے سے ہٹا دیا گیا تھا اور اس وقت پاکستانی میڈیا پر یہ خبریں بھی چلی تھیں کہ عمران خان اور پاکستانی فوج کے درمیان اس وقت کے ڈی جی آئی ایس آئی کی تبدیلی کے حوالے سے ایک محاذ آرائی چل رہی تھی۔
اسی دوران یہ چہ مگوئیاں بھی گردش کرتی سنائی دیں کہ اس وقت کے وزیراعظم عمران خان، لیفٹیننٹ جنرل فیض حمید کو پاکستانی فوج کا نیا سربراہ مقرر کرنا چاہتے ہیں۔
تاہم عمران خان ان خبروں کی متعدد بار تردید کر چکے ہیں۔ مئی 2022 میں ایک انٹرویو کے دوران سابق وزیراعظم نے کہا تھا کہ ’جنرل فیض تھا آئی ایس آئی چیف، آئی ایس آئی چیف کا وزیراعظم سے براہ راست تعلق ہوتا ہے۔ میں تو کسی اور فوجی کو جانتا نہیں تھا، میں تو کسی اور جنرل کو نہیں جانتا تھا۔‘
ان کا مزید کہنا تھا کہ وہ کسی کو فوج کا سربراہ نہیں بنانا چاہتے تھے، انھوں نے اس متعلق ایک بیان میں کہا تھا کہ ہم چاہتے ہیں کہ ملک کے ادارے مضبوط ہوں، تو میرے ذہن میں فوج کی سربراہ کی تعیناتی کے متعلق کبھی کوئی خیال نہیں آیا۔
اس سے قبل جولائی 2018 میں راولپنڈی ڈسٹرکٹ بار ایسوسی ایشن کے اجلاس میں ایک تقریب کے دوران اسلام آباد ہائی کورٹ کے سابق جج شوکت عزیز صدیقی نے الزام عائد کیا تھا کہ آئی ایس آئی ان پر عمران خان کے مخالفین کے خلاف فیصلے دینے کے لیے دباؤ ڈال رہی ہے۔
انھوں نے سابق ڈی جی آئی ایس آئی فیض حمید کا نام لے کر الزام عائد کیا تھا کہ سنہ 2018 میں عام انتخابات سے قبل ’سابق لفٹیننٹ جنرل فیض حمید ان کے گھر آئے اور مسلم لیگ ن کے قائد نواز شریف اور ان کی بیٹی مریم نواز کی درخواستوں کو نہ سننے کا کہا تھا۔‘
تاہم فیض حمید نے سابق جج شوکت صدیقی کے خلاف سپریم جوڈیشل کونسل کی کارروائی میں اپنا جواب جمع کرواتے ہوئے ان الزامات کی تردید کی تھی۔
پی ٹی آئی کے مخالفین کا آج بھی یہی موقف ہے کہ جنرل فیض حمید نے بطور آئی ایس آئی چیف عمران خان کی حکومت چلانے میں مدد کی۔
سابق وزیراعظم نواز شریف کے قریبی ساتھی سینیٹرعرفان صدیقی نے بی بی سی اردو سے بات کرتے ہوئے اس الزام کو دہرایا کہ پی ٹی آئی کے دورِ حکومت میں سابق ڈی جی آئی ایس آئی فیض حمید سیاسی معاملات سمیت مخالفین کو جیلوں میں ڈالنے، پی ٹی آئی دور میں قانون سازی کے لیے اسمبلی اجلاسوں میں اراکین کی حاضری پوری کروانے اور بجٹ منظور کروانے کے معاملات میں بھی ملوث رہے۔‘
انھوں نے دعویٰ کیا کہ ’پارلیمنٹ میں ایک کمرہ مخصوص تھا جہاں فیض حمید سے منسلک ایک افسر بیٹھتے تھے اور اسمبلی کے اجلاس پر نظر رکھتے تھے کہ کون سا بِل آ رہا ہے۔ ‘
تاہم پی ٹی آئی کے رہنما زُلفی بخاری نے بی بی سی سے بات کرتے ہوئے ان الزامات کو مسترد کرتے ہوئے کہا کہ ’ان الزامات میں کوئی سچائی نہیں ہے۔‘ ان کا مزید کہنا تھا کہ ’جنرل فیض حمید کا ہماری حکومت سے تعلق بالکل پیشہ وارانہ تھا اور ان کے دفتر کے اصولوں کے عین مطابق تھا۔‘
فیصل واوڈا جو ماضی میں نہ صرف عمران خان کی حکومت میں وفاقی کابینہ کا حصہ رہے بلکہ عمران خان کے قریبی ساتھیوں میں سے بھی ایک سمجھے جاتے تھے نے پی ٹی آئی اور سابق جنرل فیض حمید کے پی ٹی آئی کے ساتھ تعلقات پر بات کرتے ہوئے پاکستان کے نجی ٹی وی چینل اے آر وائی پر کہا کہ ’پی ٹی آئی اور فیض حمید ایک ہی سکے کے دو رخ ہیں، یہ صرف کرپشن کی بات نہیں ہے بلکہ پی ٹی آئی کی اعلیٰ قیادت بھی اس میں ملوث ہیں۔‘
انھوں نے پی ٹی آئی اور سابق سربراہ آئی ایس آئی جنرل فیض حمید کے تعلق پر بات کرتے ہوئے بی بی سی اردو کو بتایا کہ آئی ایس آئی کے سابق سربراہ کو تحویل میں لیے جانے کے سبب پی ٹی آئی بشمول عمران خان کے لہجے میں بھی نرمی آئے گی۔
ان کا کہنا تھا کہ ایسا بھی ممکن ہے کہ پی ٹی آئی تمام مسائل کا ذمہ دار فیض حمید کو قرار دے اور خود کو ان سے دور کر دے۔ تاہم ان کا کہنا تھا کہ ’ان کا احتساب بھی ہوگا۔‘
ان کا کہنا تھا کہ ’میں نے فیض حمید کی اس وقت مخالفت کی جب وہ آئی ایس آئی کے ڈی جی تھے اور میں نے اس وجہ سے بہت کچھ برداشت بھی کیا۔ لیکن مسئلہ یہ تھا کہ عمران خان کے قریب وہ بھی تھے اور میں بھی تھا۔‘
انھوں نے کہا کہ اب اس معاملے پر بھی بات ہوگی کہ ’فیض حمید کو چیف بنانے پر کیوں زور دیا جا رہا تھا۔‘
دوسری جانب پی ٹی آئی کے رہنما زُلفی بخاری نے ان الزامات کی تردید کرتے ہوئے کہا ہے کہ لیفٹیننٹ جنرل (ریٹائرڈ) کو تحویل میں لیے جانا ’فوج کا اندرونی معاملہ ہے، پی ٹی آئی کا اس سے کوئی تعلق نہیں۔‘
’عمران نے خود آئی ایس آئی کو استعمال کرنے کا اعتراف کیا‘
امریکہ میں واقع کنسلٹنگ فرم ’دا ایشیا گروپ‘ کے پرنسپل عزیر یونس کہتے ہیں کہ ’فیض حمید طاقت کے اُس ڈھانچے کا حصہ تھے جسے عمران خان کو اقتدار میں رکھنے کی ذمہ داری سونپی گئی تھی اور عمران خان ان پر خود بھی کافی بھروسہ کرتے تھے۔‘
وہ کہتے ہیں کہ ’عمران خان خود اعتراف کر چکے ہیں کہ انھوں نے فیض حمید کی زیرِ قیادت آئی ایس آئی کو اپنی اتحادی حکومت کو برقرار رکھنے کے لیے استعمال کیا۔ یہی وجہ ہے کہ آج بھی عمران خان اور پی ٹی آئی کا ذکر کیا جا رہا ہے۔‘
تجزیہ کاروں اور سیاستدانوں کے خیال میں آئی ایس پی آر کے بیان میں موجود ایک سطر پر خصوصی توجہ دینے کی ضرورت ہے۔
ان کا اشارہ اس سطر کی طرف ہے’ریٹائرمنٹ کے بعد پاکستان آرمی ایکٹ کے خلاف ورزی کے متعدد واقعات بھی سامنے آئے ہیں۔‘
دفاعی تجزیہ کار بریگیڈیئر (ر) حارث نواز کہتے ہیں کہ پاکستان آرمی ایکٹ 1952 میں صاف تحریر کیا گیا ہے کہ فوج کا کوئی بھی افسر ریٹائرمنٹ کے دو برس تک کسی سیاسی سرگرمی میں حصہ نہیں لے سکتا۔
ان کا کہنا ہے کہ ’میری اطلاع یہی ہے کہ فیض حمید سیاسی طور پر کافی متحرک تھے۔‘
ن لیگ کے سینیٹر عرفان صدیقی بھی آئی ایس پی آر کے بیان پر بات کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ ’یہ وہ نکتہ ہے جس پر لوگ شکوک و شبہات کا اظہار کر رہے ہیں کہ ریٹائرمنٹ کے بعد کیا بڑے بڑے اقدامات ہوئے ہیں پاکستان کے اندر جس میں آئی ایس آئی کا ایک سابق چیف جو کہ پی ٹی آئی کے بھی بڑا قریب رہا وہ متحرک تھا۔‘
’ایک تو 2024 کے انتخابات تھے اور میں ان کے علاقے کے قریب ہی کا رہنے والا ہوں اور جانتا ہوں کہ اس وقت انھوں نے اپنے اثر و رسوخ کا استعمال کیا تھا، لیکن میرے خیال میں یہ کوئی مجرمانہ سرگرمی نہیں ہے کیونکہ ہر شخص ہی پنا اثر و رسوخ استعمال کرتا ہے انتخابات میں۔‘
سینیٹر عرفان صدیقی نے نو مئی کے واقعات کا ذکر کرتے ہوئے کہا کہ ’اشارے ایسے ملتے ہیں کہ شاید فیض حمید اس ساری مہم کو بھی کنٹرول کر رہے تھے۔‘
دوسری جانب بریگیڈیئر (ر) حارث نواز کہتے ہیں کہ فوج نے اپنے بیان میں فیلڈ جنرل کورٹ مارشل کے عمل کو شروع کرنے کی بات کی ہے اور یہ ’اس ہی وقت ہوتا ہے جب کسی کے خلاف انکوائری ہو چکی ہے اور فوج کے پاس ثبوت موجود ہوں۔‘