قومی اسمبلی میں سپریم کورٹ کے ججز کی تعداد بڑھانے سے متعلق نیا بل مؤخر

سپیکر قومی اسمبلی ایاز صادق نے سپریم کورٹ میں ججز کی تعداد میں اضافے سے متعلق بل کو مؤخر کر دیا ہے۔

پاکستان کی پارلیمنٹ کے ایوان زیریں یعنی قومی اسمبلی میں سپریم کورٹ کے ججزکی تعداد میں اضافے کے بل کی تحریک حکومتی جماعت کے رکن اسمبلی دانیا عزیز نے پیش کی تھی۔

اننھوں نے اپنے بل میں یہ تجویز دی تھی کہ عدالت عظمیٰ میں ججز کی تعداد 17 سے بڑھا کر 23 کر دی جائے۔ ان کا کہنا تھا کہ آج ہماری آبادی 25 کروڑ سے زائد ہے، سپریم کورٹ میں زیر التوا مقدمات کی تعداد 54 ہزار سے بھی زیادہ ہے۔ انھوں نے بتایا کہ ترمیمی بل کا مقصد فوری انصاف کی فراہمی کو یقینی بنانا ہے۔

اپوزیشن جماعت پاکستان تحریک انصاف کے چیئرمین بیرسٹر گوہر نے بل کی مخالفت کی۔ بیرسٹر گوہر نے کہا کہ آئین کے تحت ایسی ترمیم صرف حکومت لا سکتی ہے، پرائیویٹ ممبر بل میں سپریم کورٹ کے ججز کی تعداد پر قانون سازی نہیں ہو سکتی۔ انھوں نے کہا کہ ججز کی تعداد بڑھانے سے قومی خزانے پر بوجھ بڑھے گا۔

ان کا کہنا تھا کہ پاکستان میں سپریم کورٹ سال میں 155 دن کام کرتی ہے، انڈیا میں سپریم کورٹ 190 دن کام کرتی ہے۔ بیرسٹر گوہر نے تجویز دی کہ ’ہمیں مقدمات کے التوا کے خاتمے کے لیے سپریم کورٹ کے کام کرنے والے دنوں کو بڑھانا چاہیے۔‘

وفاقی وزیر قانون اعظم نذیر تارڑ نے کہا کہ عدلیہ کو چھٹیوں میں کمی کے حوالے سے سوچنا ہو گا۔ ان کے مطابق کل سینیٹ نے بالکل ایسا ہی بل قائمہ کمیٹی کو بھیجا ہے۔

سینیٹ میں ججز کی تعداد میں اضافے کا بل، ’جوڈیشل مارشل لا کی تیاری ہو رہی ہے‘

سپریم کورٹ

پاکستان کی پارلیمنٹ کے ایوان بالا یعنی سینیٹ میں سپریم کورٹ ججز کی تعداد میں اضافے کا ترمیمی بل پیر کو پیش کیا گیا۔ اس وقت چیف جسٹس سمیت سپریم کورٹ میں ججز کی تعداد 17 ہے اور اس کے علاوہ دو ایڈہاک ججز بھی کام کر رہے ہیں۔ اگر یہ ترمیم منظور ہو گئی تو پھر یہ تعداد 21 ہو جائے گی۔

سینیٹ اجلاس میں بل سینیٹر عبدالقادر نے پیش کیا جس میں کہا گیا ہے کہ سپریم کورٹ میں ججز کی تعداد چیف جسٹس کےعلاوہ 20 کی جائے۔ سینیٹر عبدالقادر کے پیش کردہ بل کی پی ٹی آئی نے مخالفت کی اور کہا کہ جوڈیشل مارشل کی تیاری ہو رہی ہے۔

سینیٹر عبدالقادر کا کہنا تھا کہ سپریم کورٹ میں 53 ہزار سے زیادہ کیس زیر التوا ہیں، سپریم کورٹ میں کیس آنے میں دو دو سال لگ جاتے ہیں، میرے خیال میں تو 16 ججز بڑھنے چاہیے، سپریم کورٹ میں آئینی معاملات بہت آ رہے ہیں، لارجر بینچ بن جاتے ہیں اور ججز آئینی معاملات دیکھتے ہیں۔ انھوں نے کہا کہ اربوں روپے کے کیس سپریم کورٹ میں پھنسے ہیں، سپریم کورٹ کے پاس ٹائم نہیں کہ وہ ایسے کیس سنیں، ہمارا عدلیہ کا نظام نیچے سے ٹاپ پر ہے۔

اس پر وزیرقانون اعظم نذیر تارڑ کا کہنا تھا کہ یہ حقیقت کی باتیں ہیں، سزائے موت کے کیس زیر التوا ہیں، عمر قید کی سزا 25 سال سے زیادہ نہیں ہو سکتی، ایک شخص اپیل التوا ہونے کی وجہ سے 34 سال جیل میں گزار کر گیا، 2015 سے سزائے موت کی اپیلیں زیر التوا ہیں۔

وزیر قانون نے کہا کہ پشاور ہائیکورٹ نے دس ججز کا اضافہ مانگا ہے، وہاں پی ٹی آئی کی حکومت ہے، وہ ججز انھیں دے رہے ہیں، بل کمیٹی کوبھیج دیں۔

٭ کیا عمران خان کا کورٹ مارشل ہو سکتا ہے؟

٭کیا عمران خان کے لہجے میں تبدیلی ایک نئی حکمت عملی ہے؟

پی ٹی آئی کے سینیٹر علی ظفر کا کہنا تھا کہ یہ قانون ایک دم سے آیا ہے کہ ججز کی تعداد بڑھا دی جائے، جوڈیشل مارشل لا کی کوشش کی جارہی ہے، اس لیے سات ججز مانگے جا رہے ہیں، ہم دو ججز کی تعداد بڑھانے کو تیار ہیں، اگر آپ کو ججز کی تعداد بڑھانی ہے تو پہلے ماتحت عدلیہ سے بڑھائیں۔

سیف اللہ ابڑو نے کہا کہ جب سے سپریم کورٹ کا فیصلہ آیا ہے پی ٹی آئی کو مخصوص نشست دینے کا فئصلہ دیا ہے تب سے یہ ججز کی تعداد بڑھانے کی بات کر رہے۔ ایمل ولی نے کہا کہ جب فیصلے کہیں اور سے ہوں تو ایسے ہوتا ہے، ماتحت عدلیہ کے لیے تفصیلی اصلاحات لا رہے ہیں، ایوان زیریں کو پھر استعمال کیا جا رہا ہے، میڈیا میں خبریں آ رہی ہیں کہ اضافی ججز کس کو چاہیے۔

چیئرمین سینیٹ نے بحث کے بعد بل ایوان کی متعلقہ کمیٹی کو بھیج دیا ہے۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button