چیف جسٹس قاضی فائز عیسی کی سربراہی میں سپریم کورٹ کا پانچ رکنی لارجر بینچ 30 ستمبر کو نظرثانی کی اپیل کی سماعت کرے گا۔
شہزاد ملک، بی بی سی اردو

سپریم کورٹ نے آئین کے ارٹیکل 63 اے کے فیصلے کے خلاف نظرثانی کی درخواست کو سماعت کے لیے مقرر کردیا ہے۔
چیف جسٹس قاضی فائز عیسی کی سربراہی میں سپریم کورٹ کا پانچ رکنی لارجر بینچ 30 ستمبر کو نظرثانی کی اپیل کی سماعت کرے گا۔
اس پانچ رکنی بینچ میں چیف جسٹس کے علاوہ جسٹس منیب اختر جسٹس امین الدین جسٹس جمال مندوخیل اور جسٹس مظہر عالم میاں خیل شامل ہیں۔
سابق چیف جسٹس عمر عطا کی سربراہی میں 63 اے کی تشریح سے متعلق صدارتی ریفرنس میں اپنے اکثریتی فیصلے میں کہا تھا کہ پارلیمانی لیڈر کی ہدایت کے خلاف کوئی بھی رکن پارلیمنٹ کسی ترمیم یا تحریک عدم اعتماد میں ووٹ دے گا تو نہ تو ان کا ووٹ شمار ہوگا بلکہ ایسے رکن پارلیمان کو اپنی نشست سے بھی ہاتھ دھونا پڑ سکتے ہیں۔
یاد رہے کہ اس صدارتی ریفرنس پر رائے اس وقت دی گئی جب پنجاب کے سابق وزیر اعلیٰ حمزہ شہباز نے اعتماد کا ووٹ لیا تھا جس میں پاکستان تحریک انصاف سے تعلق رکھنے والے کچھ ارکان نے بھی ووٹ دیا تھا۔
سپریم کورٹ کا آرٹیکل 63 اے کی تشریح کے صدارتی ریفرنس پر فیصلہ: منحرف رکن کا ووٹ شمار نہیں ہوگا، تاحیات نااہلی پر قانون سازی پارلیمان کرسکتی ہے
اس عدالتی فیصلے کے خلاف حکمراں اتحاد میں شامل جماعتوں نے اس فیصلے کے خلاف نظر ثانی کی اپیل دائر کر رکھی تھی جو کہ ایک سال سے زیر التوا رہی ہے۔
اس اپیل میں حکمراں اتحاد میں شامل سب سے بڑی جماعت پاکستان مسلم لیگ نواز نے موقف اختیار کیا ہے کہ اس عدالتی فیصلے میں آئین کو دوبارہ تحریر کرنے کی کوشش کی گئی ہے۔
دوسری جانب آئین میں یہ واضح طور پر لکھا ہے کہ پارٹی پالیسی کے خلاف جو بھی رکن پارلیمنٹ ووٹ دے گا تو اس کا ووٹ لازمی شمار ہوگا تاہم وہ اپنی سیٹ سے ہاتھ دھو بیٹھے گا۔
دوسری جانب پریکٹس اینڈ پروسیجر ایکٹ کے تحت مقدمات کی سماعت کے لیے بینچ تشکیل دینے سے متعلق کمیٹی کا اجلاس ہوا جس میں اطلاعات کے مطابق کمیٹی کے رکن جسٹس منصور علی شاہ نے شرکت نہیں کی۔
صدارتی آرڈیننس کے بعد پریکٹس اینڈ پروسیجر ایکٹ کی تشکیل میں ترمیم کے بعد جسٹس امین الدین کو جسٹس منیب اختر کی جگہ پر اس کمیٹی میں شامل کیا گیا ہے۔