سابق وزیراعظم عمران خان کو 9 مئی 2023 کو قومی احتساب بیورو (نیب) کے القادر ٹرسٹ کیس میں اسلام آباد ہائی کورٹ کے احاطہ سے گرفتار کیا گیا تھا

عمران خان کی درخواست بریت مسترد کر دی

اسلام آباد کی احتساب عدالت کے جج جاوید ناصر رانا نے سابق وزیر اعظم عمران خان کی 190 ملین پاؤنڈ کے مقدمے میں بریت کی درخواست مسترد کر دی ہے۔

سپریم کورٹ کے پانچ رکنی لارجر بینچ کی جانب سے پارلیمنٹ سے منظور ہونے والی ترامیم کو بحال رکھنے کے فیصلے کے بعد عمران خان کے وکلا نے اس مقدمے سے بریت سے متعلق احتساب عدالت میں درخواست دائر کی تھی۔

یاد رہے کہ القادر ٹرسٹ کیس یا 190 ملین پاؤنڈ کیس اس ساڑھے چار سو کنال سے زیادہ زمین کے عطیے سے متعلق ہے جو بحریہ ٹاؤن کی جانب سے القادر یونیورسٹی کے لیے دی گئی تھی۔

سماعت کے دوران عمران خان اور بشری بی بی کو کمرہ عدالت میں پیش کیا گیا۔

دوران سماعت عمران خان کے وکیل ظہیر عباس نے اس درخواست کے حق میں دلائل دیتے ہوئے کہا کہ چونکہ 190 ملین پاؤنڈ سے متعلق وفاقی کابینہ نے فیصلہ کیا تھا اس لیے انھیں اس مقدمے سے بری کیا جائے۔

انھوں نے کہا کہ نیب آرڈیننس میں ہونے والی ترامیم میں وفاقی کابینہ میں ہونے والے فیصلے کو تحفظ حاصل ہے اس لیے عمران خان کو اس مقدمے سے بری کیا جائے۔

’وعدہ معاف گواہ نہیں بنوں گا‘: عمران خان کے خلاف 190 ملین پاؤنڈ کیس سے ملک ریاض کا کیا تعلق ہے؟

نو مئی 2023: احتجاج، جلاؤ گھیراؤ اور کریک ڈاؤن کی پسِ پردہ کہانی

انھوں نے دلائل دیئے کہ ’عمران خان نے اس سے کوئی مالی فائدہ نہیں اٹھایا اور نہ ہی ہراسیکیوشن کی جانب سے کسی بھی گواہ نے ان پر مالی فائدہ اٹھانے کا الزام لگایا ہے۔‘

نیب کے پراسیکوٹر نے بریت کی اس درخواست کی مخالفت کرتے ہوئے کہا کہ ملزم نے ایک سو نوے ملین کے معاملے پر حقائق وفاقی کابینہ کو نہیں بتائے تھے اس لیے وہ ضمانت کے حق دار نہیں ہیں۔

عدالت نے فریقین کے دلائل سننے کے بعد عمران خان کی بریت کی درخواست مسترد کردی ہے۔

القادرٹرسٹ کیس یا 190 ملین پاونڈ کیس کیا ہے؟

عمران خان اور بشری بی بی

القادر ٹرسٹ کیس اس ساڑھے چار سو کنال سے زیادہ زمین کے عطیے سے متعلق ہے جو بحریہ ٹاؤن کی جانب سے القادر یونیورسٹی کے لیے دی گئی تھی۔

سابق وزیراعظم عمران خان کو 9 مئی کو قومی احتساب بیورو (نیب) کے القادر ٹرسٹ کیس میں اسلام آباد ہائی کورٹ کے احاطہ سے گرفتار کیا گیا تھا۔

پی ڈی ایم کی حکومت نے یہ الزام عائد کیا تھا کہ یہ معاملہ عطیے کا نہیں بلکہ بحریہ ٹاؤن کے مالک ملک ریاض اور عمران خان کی حکومت کے درمیان طے پانے والے ایک خفیہ معاہدے کا نتیجہ ہے۔

حکومت کا دعویٰ تھا کہ ‘بحریہ ٹاؤن کی جو 190ملین پاؤنڈ یا 60 ارب روپے کی رقم برطانیہ میں منجمد ہونے کے بعد پاکستانی حکومت کے حوالے کی گئی وہ بحریہ ٹاؤن کراچی کے کیس میں سپریم کورٹ کے فیصلے کے بعد ملک ریاض کے ذمے واجب الادا 460 ارب روپے کی رقم میں ایڈجسٹ کر دی گئی تھی۔’

حکومت کا دعویٰ ہے کہ اس کے عوض بحریہ ٹاؤن نےمارچ 2021 میں القادر یونیورسٹی ٹرسٹ کو ضلع جہلم کے علاقے سوہاوہ میں 458 کنال اراضی عطیہ کی اور یہ معاہدہ بحریہ ٹاؤن اور عمران خان کی اہلیہ بشریٰ بی بی کے درمیان ہوا تھا۔

جون 2022 میں پاکستان کی اتحادی حکومت نے یہ الزام بھی عائد کیا کہ تحریک انصاف کی حکومت نے بحریہ ٹاؤن کے ساتھ معاہدے کے بدلے اربوں روپے کی اراضی سابق وزیراعظم عمران خان کی اہلیہ بشریٰ بی بی کے نام منتقل کی۔

اس وقت وفاقی کابینہ کے اجلاس کے بعد اس خفیہ معاہدے سے متعلق کچھ تفصیلات بھی منظرعام پر لائی گئی تھیں۔ ان دستاویزات پر سابق وزیراعظم عمران خان کی اہلیہ بشریٰ بی بی کے بطور ٹرسٹی القادر یونیورسٹی پراجیکٹ ٹرسٹ کی جانب سے دستخط موجود تھے۔

قومی احتساب بیورو نے سابق وزیر اعظم عمران خان اور ان کی اہلیہ کے خلاف القادر یونیورسٹی ٹرسٹ کے نام پر سینکڑوں کنال اراضی سے متعلق انکوائری کو باقاعدہ تحقیقات میں تبدیل کیا ہے۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button