فوج اور پی ٹی آئی کے درمیان مذاکرات ریاست کے مفاد میں ہیں، اس کی اشد ضرورت ہے: رؤف حسن

پاکستان تحریک انصاف کے ترجمان رؤف حسن نے کہا ہے کہ پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) اور ملک کی فوجی اسٹیبلشمنٹ کے درمیان مذاکرات ریاست کے مفاد میں ہیں اور ان کی اشد ضرورت ہے۔
امریکی نشریاتی ادارے وائس آف امریکہ (اردو) کو دئیے گئے ایک انٹرویو میں ان کا کہنا تھا کہ امید اور دعا ہےفوج اور پی ٹی آئی میں ڈیڈلاک مزید برقرار نہ رہے، ہمارا موقف ہمیشہ یہی رہا ہے کہ ہم ان کے ساتھ انگیج ہونا چاہتے ہیں، فوج کے ساتھ ڈیڈلاک ختم کرنے کے لیے پی ٹی آئی جو کرسکتی تھی وہ کیا ہے۔
ترجمان پی ٹی آئی رؤف حسن کا کہنا تھا کہ ہمارے دروازے ان کے ساتھ بات چیت کے لیے کھلے ہیں۔ انھوں نے کہا کہ فوج کے ساتھ بات چیت بھی آئین کے دائرہ کار میں ہو گی۔
ان کا کہنا تھا کہ تمام ادارےآئینی حدود میں رہ کر کام کریں گے تو عدم استحکام ختم ہو جائے گا، انفرادی سطح کے رابطے شاید بات چیت کو آگے لے جانے میں مددگار ہوتے ہیں۔
ایک سوال کے جواب میں رؤف حسن کا کہنا تھا کہ عمران خان نے محمود خان اچکزئی کو اجازت دی ہےکہ وہ سیاسی جماعتوں سے بات کر سکتے ہیں، سیاسی جماعتوں سے گفتگو کے مثبت نتائج نکل سکتے ہیں تو وہ بالکل کوشش کریں۔
وزیر اعلیٰ خیرپختونخوا علی امین گنڈاپور کے اسٹیبلشمنٹ کے ساتھ روابط سے متعلق سوال پر ان کا کہنا تھا کہ پارٹی کے کچھ لوگوں کا انفرادی سطح پر رابطہ ہو سکتا ہے۔
٭ پی ٹی آئی کی اچھوتی ڈیجیٹل انتخابی مہم جسے کبھی ’عمران خان کی آواز‘ تو کبھی ’بندشیں‘ جگائے رکھتی ہے
فوج کے ساتھ رابطہ کاری یا بات چیت کے آغاز سے متعلق بات کرتے ہوئے ان کا کہنا تھا کہ وہ اس بارے میں تبصرہ نہیں کرنا چاہتے۔
حکومت کی جانب سے عدالتی اصلاحات سے متعلق آئینی ترامیم پر اعتراض کرتے ہوئے رؤف حسن کا کہنا تھا کہ ’حکومت چیف جسٹس قاضی فائز عیسی کی مدت ملازمت میں توسیع دینا چاہتے ہیں۔
’ان کا جو کنڈیکٹ رہا ہے وہ سب کے سامنے ہیں، آئین کی خلاف ورزی کی گئی ہے، قانون کی عملداری بالکل نہیں ہے۔‘
وفاقی وزیر اطلاعات عطا تارڑ کی جانب سے رؤف حسن کے انڈیا میں رابطوں سے متعلق بات کرتے ہوئے کہا کہ یہ تمام بین الاقوامی صحافی ہیں کوئی غیر ملکی ایجنٹ نہیں۔
پارٹی میں اختلافات کے سوال پر ان کا کہنا تھا کہ پی ٹی آئی ملک کی سب سے بڑی سیاسی جماعت ہے اس میں اختلاف رائے رکھنا نہ صرف کارکنوں کا بنیادی حق ہے بلکہ پارٹی کا حسن بھی ہے۔ ’لہذا یہ چھوٹے موٹے اختلافات کوئی اہم نہیں۔‘