ڈبیلو ایچ او نے ایم پوکس کے ’سب سے خطرناک‘ ویریئنٹ کو عالمی صحتِ عامہ کے لیے خطرہ قرار دے دیا

عالمی ادارہ صحت (ڈبلیو ایچ او) نے افریقہ کے متعدد حصوں میں پھیلنے والی وبا ایم پوکس کو عالمی صحتِ عامہ کے لیے خطرہ قرار دیا ہے۔
ایم پوکس (ماضی میں اسے منکی پوکس کہا جاتا تھا) کے سبب کانگو میں اب تک 450 سے زیادہ افراد ہلاک ہوچکے ہیں۔
اب یہ وبا وسطی اور مشرقی ایشیا تک بھی پھیل چکی ہے۔ سائنسدان اس وبا کے نئے ویریئنٹ کے اتنی تیزی سے پھیلنے اور جان لیوا ہونے پر تشویش کا اظہار کر رہے ہیں۔
ڈبیلو ایچ او کے سربراہ تدروس ادھانوم کا کہنا ہے کہ یہ وبا افریقہ کے باہر بھی پھیل سکتی ہے اور ’یہ انتہائی پریشان کُن‘ بات ہے۔
ایک بیان میں ان کا کہنا تھا کہ ’اس وبا کو روکنے اور جانیں بچانے کے لیے ایک مشترکہ عالمی ردِعمل ضروری ہے۔‘
ایم پوکس ایک ایسی بیماری ہے جو کہ قریبی رابطوں جیسے کہ سیکس، مریض کو چھونے یا متاثر فرد کے قریب بیٹھ کر سانس لینے سے بھی لگ جاتی ہے۔
اس بیماری کے دوران نزلے اور جسم پر خراش جیسی علامات دیکھنے میں آ سکتی ہے۔ محققین کے مطابق اس بیماری کے سبب 100 میں سے تقریباً چار افراد موت کے منہ میں چلے جاتے ہیں۔
ایم پوکس کی دو قسمیں ہیں: کلیڈ ون اور کلیڈ ٹو۔
سنہ 2022 میں بھی ایم پوکس کو عالمی صحت کے لیے ایک خطرہ قرار دیا گیا تھا، جب کلیڈ ٹو ویریئنٹ کے سبب لوگ متاثر ہوئے تھے۔
تاہم اس مرتبہ لوگ کلیڈ ون ویریئنٹ سے متاثر ہو رہے ہیں جو کہ زیادہ خطرناک ہے۔ اب تک اس سے متاثر ہونے والے مریضوں کی تقریباً 10 فیصد تعداد اپنی جانوں سے ہاتھ دھو چکی ہے۔
ایم پوکس کے اس نئے ویریئنٹ کو کلیڈ ون بی کا نام دیا گیا ہے۔ ایک سائنسدان نے اسے ایم پوکس کا اب تک کا ’سب سے خطرناک‘ ویریئنٹ قرار دیا ہے۔
کانگو میں اس وائرس سے تقریباً 13 ہزار 700 لوگ متاثر ہو چکے ہیں، جن میں سے 450 افراد ہلاک ہوئے ہیں۔
کانگو کے علاوہ ایم پوکس کی یہ نیا ویریئنٹ برونڈی، سینٹرل افریقن رپبلک، کینیا اور روانڈا میں بھی لوگوں کو متاثر کر رہا ہے۔