بابِ دوستی پر تاجروں کی جانب سے مطالبات پورنے نہ ہونے پر دوبارہ دھرنے کا اعلان

بلوچستان کے سرحدی شہر چمن میں پاکستان اور افغانستان کے درمیان آمدورفت کے لیے حکومت پاکستان کی جانب سے پاسپورٹ کی شرط کے خلاف منگل سے دوبارہ دھرنے کا آغاز کردیا گیا۔

آل پارٹیز، تاجر اور لغڑی (محنت کش) اتحاد کے زیرِ اہتمام اس دھرنے میں لوگوں کی ایک بڑی تعداد نے شرکت کی۔

پاسپورٹ کی شرط کے خلاف چمن شہر میں دھرنے کا آغاز گزشتہ سال اکتوبر سے کیا گیا تھا لیکن چمن کی تاریخ کا طویل دھرنا رواں سال 21 جولائی کو ختم کیا گیا تھا۔

یہ دھرنا بلوچستان کے سابق نگراں وزیرِ داخلہ ملک عنایت اللہ خان کاسی کے اس اعلان پر ختم کیا گیا تھا کہ چمن سے دونوں ممالک کے درمیان آمدورفت کے لیے پرانے طریقے کی بحالی کے مطالبے کو تسلیم کیا گیا ہے۔

تاہم تاجر رہنما اور دھرنا کمیٹی کے ترجمان صادق اچکزئی کا کہنا ہے کہ چونکہ آمد ورفت کے پرانے طریقے کو اس کی صحیح حالت میں بحال نہیں کیا گیا اس لیے منگل سے دوبارہ دھرنے کا آغاز کر دیا گیا ہے۔

اب دوبارہ دھرنا کہاں دیا جارہا ہے؟

یہ دھرنا چمن شہر میں دوبارہ اس مقام پر دیا جارہا ہے جہاں سے یہ گزشتہ سال اکتوبر میں شروع کیا گیا تھا۔

پاکستان اور افغانستان کے درمیان شاہراہ پر دھرنے کی جگہ شہر کے مرکز سے پانچ کلومیٹر جبکہ سرحد سے دو کلومیٹر کے فاصلے پر ہے۔

٭ پاکستان کا وہ علاقہ جہاں لوگ 25 کلومیٹر دور دستیاب سامان کے لیے 1400 کلومیٹر کا ’اذیت ناک سفر‘ کرنے پر مجبور ہیں

٭ ایران اور پاکستان کے لیے دردِ سر بننے والے عسکریت پسند سرحدی علاقوں میں کیسے آپریٹ کرتے ہیں؟

صادق خان اچکزئی نے بتایا کہ گزشتہ روز آل پارٹیز، تاجر اور لغڑی اتحاد کے درمیان ہونے والے اجلاس میں یہ طے پایا کہ دھرنے کو پرانے مقام پر سے ہی دوبارہ شروع کیا جائے کیا جائے۔

انھوں نے کہا اس لیے شاہراہ پر پرانے مقام پر کنٹینر لگا کر سٹیج بنادیا گیا اور صبح دس بجے سے دھرنا شروع کردیا گیا۔

بلوچستان، چمن

چمن کے لوگ پاسپورٹ کی شرط کو تسلیم کرنے کے لیے کیوں تیار نہیں؟

بلوچستان کے سرحدی شہر چمن میں باب دوستی اور اس کے قرب و جوار میں دیگر کراسنگ پوائنٹ سے پہلے لوگ پاکستانی شناختی کارڈ جبکہ چمن سے متصل افغانستان کے سرحدی علاقوں کے لوگ افغان تذکرے پر آیا جائا کرتے تھے۔

چمن شہر میں روزگار اور معاش کے متبادل ذرائع محدود ہونے کی وجہ سے یہاں کے لوگوں کے معاش اور روزگار کا انحصار افغانستان کی سرحدی منڈیوں پر ہے۔

سرحد کی دوسری جانب افغانستان میں سرحدی منڈیوں کی ایک بڑی تعداد ہے جہاں چمن شہر سے روزانہ ہزاروں محنت کش اور چھوٹے تاجر روزانہ کی بنیاد پر آتے جاتے رہے ہیں۔

لیکن گزشتہ سال اکتوبر میں سابق نگراں حکومت نے چمن بارڈر سے بھی آمدورفت کے لیے پاسپورٹ کی شرط کو لاگو کیا۔

’ہمارے ساتھ جو وعدہ کیا گیا اس پر عمل نہیں ہوا‘

صادق اچکزئی نے کہا کہ جب ہم قید تھے تو وہاں سرکاری حکام نے ہم سے مذاکرات کیئے اور ہمیں یہ یقین دہانی کرائی گئی کہ پہلے کی طرح چمن سرحد سے پاکستانی شناختی کارڈ اور افغان تزکرے کی بنیاد پر آمدورفت ہوگی۔

انھوں نے کہا کہ ان مذاکرات میں سابق نگراں وزیر داخلہ ملک عنایت کاسی اور کمانڈر حاجی لالو اچکزئی ضامن تھے۔

ان کا کہنا مذاکرات میں حونے والے وعدے کے برعکس اب یہ کہا جارہا ہے کہ افغان تذکرے پر آنے والوں کو صرف باب دوستی سے پارکنگ تک جانے کی اجازت دی جاتی ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ ہمارا یہ مطالبہ تھا کہ چمن اور قلعہ عبداللہ کے لوگ قومی شناختی کارڈ پر افغانستان جائیں گے جبکہ افغانستان کے صوبہ قندہار کے تختہ پل تک کے علاقے لوگ افغان تذکرے پر چمن سے متصل قلعہ عبداللہ تک آمدورفت کرسکیں گے۔

افغانستان اور پاکستان کے درمیان چمن سے پاسپورٹ کی شرط لاگو کرتے وقت پاکستانی حکام نے کہا تھا کہ پاکستان کی سیکورٹی اور اس کی معاشی استحکام کے لیے پاسپورٹ پر آمدورفت ناگزیر ہے۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button