شیخ حسینہ واجد کے خلاف قتل کی تحقیقات کا اعلان

بنگلہ دیش کی سابق وزیر اعظم شیخ حسینہ واجد کے خلاف مُلک میں بدامنی کے دوران پولیس کے ہاتھوں ایک عام شہری کی ہلاکت کی تحقیقات کا آغاز کر دیا گیا ہے۔

دارالحکومت ڈھاکہ میں کئی ہفتوں سے جاری ہلاکت خیز بدامنی کے بعد گزشتہ حکومت کی چھ دیگر اعلیٰ شخصیات کے خلاف بھی تحقیقات کی جا رہی ہیں۔

بنگلہ دیش کے ایک شہری کے وکیل مامون میا نے کہا کہ ڈھاکہ کی عدالت نے پولیس کو ’ملزمان کے خلاف قتل کا مقدمہ‘ درج کرنے کا حکم دے دیا ہے۔

حسینہ واجد نے رواں ماہ کے آغاز پر اپنے عہدے سے استعفیٰ دے دیا تھا اور سیاسی بدامنی کے بعد انڈیا روانہ ہو گئی تھیں۔

ابو سعید نامی ایک عام شہری فسادات کے دوران سڑک پار کرتے ہوئے سر میں گولی مار کر ہلاک کر دیا گیا تھا جس کے بعد ایک مقامی تاجر عامر حمزہ نے جولائی میں قتل کا مقدمہ درج کرنے کی درخواست دی تھی۔

بی بی سی بنگلہ کے مطابق عامر حمزہ نے عدالت کو بتایا تھا کہ 19 جولائی کو طلبہ پرامن احتجاج کر رہے تھے تاہم پولیس کی جانب سے ہجوم پر اندھا دھند فائرنگ کی گئی۔

حمزہ نے کہا کہ ان کا سعید سے کوئی تعلق نہیں ہے لیکن انھوں نے عدالت سے رجوع کیا کیونکہ سعید کے خاندان کے پاس مقدمہ دائر کرنے اور انصاف کے حصول کے لیے وسائل نہیں تھے۔

انھوں نے خبر رساں ادارے روئٹرز کو بتایا کہ ’میں بنگلہ دیش کا پہلا فرد ہوں جس نے شیخ حسینہ کے خلاف ان کے جرائم پر یہ قانونی قدم اٹھانے کی ہمت اور فیصلہ کیا ہے اور میں اس کیس کو ہر حد تک لے کر جاؤں گا۔‘

شیخ حسینہ واجد کے خلاف اُن کے استعفے کے بعد سامنے آنے والے اس پہلے مقدمے سے متعلق مجسٹریٹ راجیش چودھری نے پولیس کو اس کی تحقیقات کا حکم دے دیا ہے۔

سابق وزیر ٹرانسپورٹ وپل عبیدالقادر بھی ان افراد میں شامل ہیں جن کے خلاف تحقیقات کی جا رہی ہیں۔

حسینہ واجد کی حکومت، جو 15 سال تک برسراقتدار رہی، پر بڑے پیمانے پر انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں اور بڑے پیمانے پر بدعنوانی کے الزامات عائد کیے گئے تھے۔

Bangladesh

شیخ حسینہ واجد کے خلاف شروع ہونے والا طلبہ کا احتجاج

واضح رہے کہ طلبہ کا حالیہ احتجاج جولائی کے اوائل میں شروع ہوا تھا۔ جس کا آغاز یونیورسٹی کے طالب علموں کی جانب سے سول سروس کی ملازمتوں میں کوٹہ ختم کرنے کے پرامن مطالبے کے طور پر سامنے آیا۔ جس کے بعد یہ حکومت کے خاتمے کے لیے ایک تحریک کی شکل اختیار کر گیا۔

حسینہ واجد نے پولیس پر زور دیا کہ ’وہ مظاہرین کے خلاف سخت کارروائی کرے اور انھوں نے طلبہ کو ’طالب علم نہیں بلکہ دہشت گرد قرار دیا‘ جو ملک کو غیر مستحکم کرنا چاہتے ہیں۔‘

* بنگلہ دیش میں عوام کو حسینہ واجد کی حکومت پر اتنا غصہ کیوں ہے؟

* شیخ حسینہ کے بیٹے نے یہ موازنہ کیوں کیا اور کیا یہ حقائق پر مبنی ہے؟

حال ہی میں تشکیل پانے والی نئی حکومت میں طلبہ تنظیم کے اراکین بھی شامل ہیں اور اس کی قیادت نوبل امن انعام یافتہ محمد یونس کر رہے ہیں۔

دوسری جانب حسینہ واجد کے بیٹے سجیب واجد جوئے نے کہا ہے کہ انتخابات کے اعلان کے بعد حسینہ واجد وطن واپس آئیں گی۔

 

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button