”وہ کون سی جگہ ہے جس سے محبت کی جائے؟!“
محمد خان داؤد

”کینسر وارڈ“کی زویا کا ماسکو میں دل نہیں لگ رہا۔وہ تو ازبک ہے،وہ بہت بے چین ہے۔وہ ماسکو کے کینسر وارڈ میں بطور جلا وطن کام کر رہی ہے،جلا وطنی میں تو آزادی ہو تی ہے اور بے فکری ہو تی ہے۔پر زویا بہت اداس اور بے چین ہے۔وہ بے فکری اور آزادی تو ساتھ لائی ہے۔پر اپنا سب کچھ پیچھے چھوڑ آئی ہے۔سب کچھ!
وہ ”کینسر وارڈ!“ میں یہ سوال اس شاعر نماں دانشور سے کرتی ہے۔جس نے ہزاروں کتابیں پڑھی ہیں او ر کبھی ایک لفظ بھی لکھا نہیں۔وہ شاعر نماں دانشور پڑھنے کو روح کی مزدوری اور لکھنے کو الفاظوں کا زیاں سمجھتا ہے اور جب بھی اس سے کوئی لکھنے کو کہتا تو وہ جواب دیتا کہ
”یہاں تو صحیفوں کی اور صحیفے لانے والوں کو گلوٹین(دار) پر سر رکھنا پڑا۔ان کے جسموں سے کھیل کھیلا گیا،ان کو مصلوب کیا گیا،آگ میں جھوکیا گیا،آری سے چیرا گیا،ان کے پیچھے پاگل کتے نماں انسانوں اور پاگل کتوں کو چھوڑ گیا۔ان کو زہر پینے پر مجبور کیا گیا۔ان کو فائرنگ اسکوائڈ کے سامنے کھڑا کیا گیا۔ان کے جسموں میں بارود کی آگ داخل کی گئی۔ان کے جسموں کو بھونکتی بندوقوں کے سامنے کھڑاکیا گیا۔انہیں دیوانہ سمجھا گیا۔ان کے نفیس جسموں میں سوراخ کیے گئے۔ان کی روحوں کو گھائل کیا گیا۔ان کے جوتوں کو ان ہی کے لہو سے بھر دیا گیا۔ان کے سوچتے دماغوں کی کھوپڑیوں کا نشانہ لیا گیا۔ان کی جاسوسیاں کی گئیں۔ان کے گریبانوں میں ہاتھ ڈالا گیا،ان کو گھسیٹا گیا۔ان کی تذلیل کی گئی۔تذلیل کیا ان کی زندگیوں کے چراغوں کو گُل کیا گیا۔نہ ان کو پہچانا گیا نہ ان کی باتوں کو سنا گیا۔نہ انہیں زندہ رہنے دیا گیا نہ ان کے صحیفے کو برداشت کیا گیا!
دنیا شاہد ہے
صحیفے دانشوروں کے جسموں کی طرح جلتے رہے
اور دانشور ان صحیفوں کی طرح
کنفیوشس کے ساتھ کیا ہوا؟پالوس کے ساتھ کیا ہوا؟یسوع کے ساتھ کیا ہوا؟
عقلیں چھوٹی ہیں محدود ہیں
اور جو صاحب علم آتا ہے تو ان کی وہ باتیں ان ذہنوں میں داخل ہی نہیں ہو تیں جو ذہن بہت چھوٹے ہو تے ہیں اور بہت ہی قلیل!
میں لکھوں پر سمجھنے پڑھنے کو بھی تو کوئی یسوع آئے،کوئی کنفیوشس آئے
میں ان کے لیے کیا لکھوں جن کے ذہن کسی نصابی کتاب پڑھنے سے بڑھ کر نہیں!“
وہ شاعر نماں دانشور بس پڑھتا ہی رہتا
پر زویا تو بے چین رہتی اداس رہتی وہ اس شاعر دانشور سے یہ سوال کرتی کہ
وہ کون سی جگہ ہے جس سے محبت کی جائے؟!
وہ شاعر دانشور اپنے ہاتھوں میں تھامی کتاب کو اک طرف رکھتا،کچھ دیر خاموش رہتا،کچھ سوچتا اور ایسا محسوس ہوتا کہ وہ کہیں دور نکل گیا ہے،دور بہت دور کیوں کہ وہ ”کینسروارڈ!“ میں ہوتا ہے،کینسر اسپتال ماسکو میں ہے پر وہ خود ماسکو کا نہیں وہ وہاں کا ہوتا ہے جہاں محبت کا جنم ہوتا ہے جہاں پہلی گالی اور پہلی دعا اس نے ماں کی بولی میں سیکھی تھی۔جہاں اس کے نام کو ماں کی بولی میں پکارا جاتا تھا۔جہاں اس کے نام کے ہجے کو غلط نہیں لیا جاتا تھا،جہاں کی زمیں ہی کیا پر جہاں کی ندیاں بھی اسے جانتی تھیں،جہاں کے درختوں سے اسے ایسا ہی پیار تھا جیسا پیار سدھارتھ کو ندی سے ہوتا ہے
وہ کچھ دیر خاموش رہنے کے بعد زویا کو جواب دیتا ہے کہ
”وہ جگہ جہاں تم رحم مادر سے باہر نکلیں۔ایک چیختے چلا تے بچے کی صورت میں۔
جو کچھ بھی نہیں سمجھتا تھا نہ یہ کہ وہ کیا دیکھتا ہے
اور نہ یہ کہ وہ کیا سن رہا ہے
یا وہ جگہ جہاں پر تمہا ری ماں نے تم پر اچھا سا نام رکھا
وہ جگہ جہاں تم پیشاب میں گیلی رہیں اور پو ری رات ماں بے چین رہی
یا وہ جگہ جہاں تم چلنا سیکھ رہیں تھیں اور چلتے چلتے بار بار گر رہے تھیں
تم تو ہنس رہی تھیں پر تیرے چلتے قدم دھرتی اور ماں کے سینے پر پڑھ رہے تھے
یا وہ جگہ جہاں تمہا رے جسم میں پہلی بار محبت کی خوشبو سمو رہی تھی
اور تم کسی رس بھرے انگور کی ماند ہو گئی تھیں
یا وہ جگہ جہاں پر پہلی بار کسی نے تم سے کہا
”تم بہت خوبصورت ہو!!!!!“
یا وہ جگہ جہاں کسی نے پہلی بار آگے بڑھ کر تمہیں اپنے سینے سے لپٹ لیا ہو
اور تمہیں محسوس ہوا ہو کہ تمہارا دل یا تو دنیا کے سارے دلوں سے زیا دہ دھڑک رہا ہے
ہا رُک گیا ہے
یا وہ جگہ جہاں کسی نے پہلی بار تمہا رے ہونٹوں کا رس چکھا ہو۔
اس کے ہونٹ بھی گلابی رنگت سے بھر گئے ہوں
اور تم بھی اک نئے مزے سے آشنا ہوئی ہو
وہ جگہ اس لائق ہے کہ وہاں رہا جا سکتا ہے رہا کیا پر وہاں تو مرا بھی جا سکتا ہے!
زویا کسی سے کہنا مت کہ یہ میں نے تمہیں کہا ہے مجھ میں بھونکتی بندوق کا بارود سہنے کی طاقت نہیں!“
یہی باتیں ہو بہ ہو ایسی باتیں،وہ دانشور شاعر بھی کہا کرتا تھا جس کے جسم کو بھونکتی بندوقوں کی نظر کیا گیا۔وہ جس پر بندوق بردار کتے چھوڑے گئے۔وہ جس کے نفیس جسم میں بارود کو بھر دیا گیا۔وہ جو کسی ایک زویا سے مخاطب نہ تھا۔وہ ایک دھرتی کی سیکڑوں زویاؤں سے مخاطب رہتا،وہ زویا جیسی دھرتی اور دھرتی جیسی زویاؤں سے مخاطب رہتا۔وہ آپ یسوع،وہ آ پ کنفیوشس،وہ آپ پالوس تھا۔
وہ بہت پڑھتا،اور بہت لکھتا۔
لکھنا،پڑھنا اس کا جرم نہ ٹھہرا
پر جب اس نے ”کینسر وارڈ!“ میں داخل شاعر دانشور کی طرح بولنا شروع کیا تو یہی اس کا جرم ٹھہرا
پر وہ بہادر تھا۔وہ بہت بہادر تھا،وہ جانتا تھا وہ کیا کہہ رہا ہے
اور اس کے ساتھ کیا ہوسکتا ہے؟!!!!
اس کے ساتھ وہی ہوا جو پالوس کے ساتھ ہوا
پالوس کو ناسمجھ پکڑ کر دار کے گلوٹین پر لے آئے جیسے ہی اس پر تیز دھار آلہ چلایا گیا اس کے سر کو جھٹک دیا
دھرتی کو رنج پہنچا دھرتی نے کہا ”میرے پاس آنا ہے تو اسی راستے سے آنا ہوگا!“
اگلی بار پالوس نے خود ہی سر دار پر رکھا اور سر کو تیز دھار آلے نے دور جاکر پھینک دیا
وہ بھی تو ایسا تھا
ہو بھی ہو یسوع
ہو بہ ہو کنفیوشس!
اور وہ بھی یہی کہا کرتا تھا
جہاں ماں سے تم جنمے گئے ہو
جہاں پر ماں نے تم پر اچھا سا نام رکھا ہے
جہاں پر تم پہلی بار چلے ہو
جہاں پر تم نے محبت کے گلابی ہونٹ چومیں ہیں
جہاں پرمحبت تم پر نچھا ور ہوئی ہے
وہیں رہو
وہ تمہاری دھرتی ہے!
وہ تمہا ری ماں ہے!
دھرتی سے ماں جیسی محبت کرو
یا غلامی کا طوق پہن لو
اور بہت سے جو تے کھا تے رہو
یہ میں نہیں پالوس کہہ رہا ہے
کنفیوشس کہہ رہا ہے
ماہ رنگ کہہ رہی ہے
سمی کہہ رہی ہے
اب فیصلہ تمہیں ہی کرنا ہے دھرتی سے محبت کرنی ہے یا جو تے کھانے ہیں؟!!