ضلع گوادر میں موبائل فون سروس اور تمام شاہراہیں کھول دی گئیں: اسسٹنٹ کمشنر

بلوچستان کے ساحلی ضلع گوادر میں دو ہفتے بعد شاہراہیں مکمل طور پر کھل گئی ہیں، جبکہ موبائل فون سروس بھی بحال ہوگئی ہے۔

اسسٹنٹ کمشنر گوادر جواد زہری نے بی بی سی کو بتایا کہ بلوچ یکجہتی کمیٹی کے دھرنے کے ختم ہونے کے بعد گزشتہ روز ہی شاہراہیں کھل گئی تھیں اورموبائل فون سروس بحال ہوگئی تھی۔

گوادر میں تاجر برادری اور ماہی گیروں کا کہنا ہے کہ شاہراہوں اور موبائل فون سروس کی بندش سے ان کا کام بہت زیادہ متاثر ہوا۔

دوسری جانب ضلع کے تاجروں اور ماہی گیروں کا کہنا ہے کہ شاہراہوں اور موبائل فون سروس کی بندش کا کوئی جواز نہیں تھا۔

خیال رہے حکومت نے ’بلوچ راجی مچی‘ (بلوچ قومی اجتماع) کے سبب 28 جولائی کو گوادر جانے والی تمام شاہراہیں اور موبائل فون سروس بند کر دی تھی۔

’گوادر میں دھرنا تو شہر کے ایک کونے پر تھا‘

27 جولائی کو شاہراہوں کی بندش کے سبب بلوچستان کے مختلف علاقوں اور کراچی کا گوادر سے زمینی راستہ منقطع ہوگیا تھا۔

انجمن تاجرانِ گوادر کے صدر غلام حسین دشتی اس حوالے سے کہتے ہیں کہ شاہراہوں اور موبائل فون سروس کی بندش سے گوادر میں معمولات زندگی متاثر ہوئے ہیں۔

ان کا کہنا تھا کہ گوادر میں خوراک اور دیگر ضروری اشیا دوسرے شہروں سے لائی جاتی ہیں اور شاہراہوں کی بندش کے سبب ضلع میں اشیا کی قلت ہونے کے علاوہ پانی اور بجلی کی فراہمی بھی متاثر ہوئی ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ ’گوادر میں جو دھرنا دیا جارہا تھا وہ ایک کونے میں تھا، لیکن اس کے لیے شہر کی آمدورفت کے راستوں اور موبائل فون سروس کو بند کیا گیا۔‘

گوادر سے تعلق رکھنے والے ایک ماہی گیر محمد ایوب نے بتایا کہ دھر نا تو بالکل شہر میں ایک طرف تھا، لیکن اس وجہ سے رکاوٹوں کی وجہ سے چار پانچ روز تک گوادر کے ماہی گیر سمندر نہیں جاسکے۔

ماہی گیری سے وابستہ گوادر کے ایک اور رہائشی یونس انور بلوچ نے بتایا کہ اس وقت گوادر میں حالات معمول پر ہیں، لیکن شہر میں پیدا ہونے والی صورتحال کی وجہ سے ان کا روزگار متاثر ہوا۔

گوادر کی طرح مکران ڈویژن کے دو دیگر اضلاع کیچ اور پنجگور میں بھی موبائل فون سروس اور شاہراہوں کی بندش سے لوگوں کو مشکلات کا سامنا کرنا پڑا تھا۔

بلوچ یکجہتی کمیٹی کا کہنا ہے کہ حکومت کی جانب سے شاہراہوں اور موبائل فون سروس بند کرکے لوگوں کے لیے مشکلات پیدا کی گئی ہیں۔

دوسری جانب وزیر اعلیٰ بلوچستان میر سرفراز بگٹی نے بلوچی راجی مچی کے لیے گوادر کے انتخاب کو بلاجواز قرار دیا تھا۔

بلوچستان کے وزیر داخلہ میر ضیا اللہ لانگو نے کہا کہ بلوچ یکجہتی کمیٹی کے مطالبات کو پہلے ہی تسلیم کیا گیا تھا، لیکن انھوں نے بلاوجہ گوادر میں دھرنے کو طول دیا۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button