ایک محبت کافی ہے!
محمد خان داؤد

کنفیوشس سے شاگرد نے پوچھا اس محدود سی زندگی میں لامحدود محبت کس سے کی جائے؟
کنفیوشس نے بغیر سوچے کہا”دھرتی!“
اور جس نے دھرتی سے محبت کی وہ محدود سی زندگی میں لامحدود ہو گیا
یہی بات سندھ کے دیوانے شاعر استاد بخاری نے بھی کہی ہے کہ
”ھُئن مٹی جی چپٹی آھیان
جئے دیس تہ پوءِ دھرتی آھیان!!!“
کیا محدود سی زندگی میں صباء دشتیاری لا محدود نہیں ہو گیا؟
وہ جو دیس کے رنگوں میں رُل گئے اور وہ بھی جو دیس کو اپنے لہو سے لال لال کر گئے اور وہ بھی جن کی یاری پہاڑوں سے اور چاند سے ہو تی ہے۔اور وہ بھی جو سسئی کے عشق کی طرح پہاڑوں میں گئے اور آپ ہی پنہوں ہو گئے۔اور وہ بھی جودیس کی گلیوں میں رُلتے ہیں اور دیس سے محبوبہ جیسی محبت کرتے ہیں۔اور وہ بھی جو بہت سوچتے ہیں اور کچھ نہیں لکھتے اور وہ بھی جو کچھ نہیں سوچتے بس اوشو کی طرح اپنے قلم سے کلہاڑی کا کام کرتے ہیں۔اور وہ بھی جو ہاتھوں میں دیس کی آزادی کا پرچم تھامے چلتے ہی رہتے ہیں۔اور وہ بھی جو دیس کے پھولوں سے محبت جیسی محبت کرتے ہیں۔اور وہ بھی جو دیس کی بارشوں میں اک نئے واعدے کے ساتھ بھیگتے ہیں اور بہت روتے ہیں۔اور وہ بھی جو دانشور ہیں پر بہت ڈرتے ہیں اور وہ بھی جو دانشور نہیں پر کسی سے نہیں ڈرتے۔اور وہ بھی جو دیس کے لیے گیت لکھتے ہیں پر گم نام سے رہتے ہیں اور وہ بھی جو دیس کے گیت گاتے ہیں۔جو دیس کے جھرنوں سے محبت کرتے ہیں اور ان کے من میں جھرنوں سے گرتے پانیوں کی سی آواز آتی رہتی ہے۔اور وہ بھی جو دیس کی دھرتی پر رقص کرتے ہیں اور جھومتے جھومتے مٹی ہو جا تے ہیں۔اور وہ بھی جو کچھ نہیں کہتے جو شاید کبھی کچھ کہیں!
اور وہ بھی جو کسی کے منتظر ہیں۔اور وہ بھی جن کو اب کسی کا کوئی انتظار نہیں۔اوروہ بھی جو محبت جیسے ہیں۔اور وہ بھی جو محبت کے ایاموں جیسے ہیں۔جو دھرتی سے جُڑتے ہیں اور دھرتی ان کو اپنے تمام دُکھ ایسے کہہ دیتی ہے جیسے محبوبہ اور ماں اپنے عاشقوں اور بیٹوں سے اپنے دل کی بات کہہ دیتی ہے!
محبت کے معمولی سے قسم کسی محبوبہ کے گال چومنے والی کیفیت میں ہے۔اور محبت کی اعلیٰ قسم دھرتی کا سندور ماتھے پر لگانے میں ہے۔دھرتی سے مل کر دھول ہوجانے میں ہے۔مٹی سے مل کر مٹی ہوجانے میں ہے۔اس محدود سی دنیا میں کیا ہوشو،ہیموں،شاہ عنایت،اور وہ سب جو دھرتی پر وارے گئے کیا لامحدود نہیں ہوئے؟آج ان کو کس پیمانے سے ناپو گے جو دھرتی کے عشق میں لہو لہو ہوئے۔دھرتی کے پرچم میں لپٹے گئے اور پھر دھرتی کی بہانوں میں محبت سے سو گئے!
ان کے لیے ایک محبت کافی تھی
دھرتی سے محبت۔مٹی سے محبت۔خاک سے محبت۔دھرتی کی دھول سے محبت۔دھرتی کے رنگوں سے محبت۔دھرتی جیسے لوگوں سے محبت۔دھرتی کی بولی سے محبت۔اپنوں سے محبت۔دھرتی کی بارشوں سے محبت۔دھرتی پر طلوع ہو تے چاند سے محبت۔دھرتی کے رنگوں سے محبت۔دھرتی کے ساحلوں سے محبت،نیلگوں پانیوں سے محبت۔دھرتی پر چلتے ننگے دھول آلود پیروں سے محبت۔ان انسانوں سے محبت جو کچھ نہیں جانتے وہ دھرتی پر جنگلی پھولوں کی طرح پیدا ہو تے ہیں اور پھر اسی دھرتی پر پتی پتی بن کر بکھر جاتے ہیں۔وہ جن کے پیروں میں جو تے نہیں۔جن کے شکم میں رو ٹی نہیں۔پر وہ دیس پر ایسے وارے جا تے ہیں جیسے محبت،محبت پر واری جائے!
وہ بس ایک محبت کرتے ہیں۔ان کے ایمان میں دوسری محبت نہیں ہو تی۔وہ ایک محبت جیتے ہیں اور ایک محبت ہی مر جا تے ہیں۔وہ محبت کے پنہوں کے سسئی ہو تے ہیں۔
”بلوچ راجی مُچی!“ بھی دیس کے سسئی ہیں۔
یہ اپنے پنہوں کی تلاش میں ہیں۔وہ پنہوں کیا ہے؟محدود سے لامحدودیت کا سفر!!!
جب محدود سے لامحدودیت کا سفر شروع ہوتا ہے تو یہ دنیا بہت چھوٹی پڑ جا تی ہے۔تاریخ ایسے کرداروں سے بھری ہوئی ہے جو دنیا کے تنگ دائرے سے نکل گئے اور ان کے قدم وہاں پڑے جہاں بہت سی وسعتیں ہیں
انہوں نے بھی بس ایک محبت کی ہے۔دیس سے محبت۔ان کے من میں کوئی دوسری محبت نہیں۔وہ دیس سے محبت بن کر جُڑ گئے ہیں۔وہ پہاڑوں کے دامنوں میں پھولوں کی طرح کھل اُٹھے ہیں۔تم انہیں کچلوگے وہ پھر طلوع ہوجائیں گے۔کیا میدانوں میں اُگی گھاس گدھوں کے پیروں سے روندھی جاسکتی ہے؟گدھے ان گھاسوں پر چلتے ہیں گھاس دب جا تی ہے۔گدھے چلے گزر جا تے ہیں۔گھاس پھر نمودار ہو جا تی ہے۔سیکڑوں گدھوں کے پیروں کے نیچے میں نے نمودار ہو تی سر سبزگھاس دیکھی ہے۔کیا آپ نے ایسی گھاس دیکھی ہے؟
جن سے دھرتی محبت کرے وہ اتنی جلدی فنا نہیں ہو تے۔جن کے گیت پہاڑ گائیں وہ ضرور سرخ رو ہو تے ہیں۔جن کے قدم ساحلوں پر پڑیں،ساحل ان قدموں کو صدیوں تک سنبھالتے ہیں۔نیلے پانی ان کے قدموں پر واری واری جا تے ہیں۔آکاش ان پر محبت کی بارش برساتا ہے اور وہ ان میٹھی میٹھی بارشوں میں بھیگتے رہتے ہیں۔ان کے لیے پہاڑ سُرکتے ہیں۔ان سے پہاڑ بغلگیر ہو تے ہیں
وہ دیس کے سسئی ہو تے ہیں۔پہاڑ ان سے پوچھتے ہیں ہم تمہارے لیے کیے کریں؟اور وہ ان سے سسئی کی ماند یہ نہیں کہتے کہ
”ڈونگر مون سین روءِ۔کڈھی پار پنہوں جا!“
”پتھروں میرے ساتھ پنہوں کے لیے روو!“
پر وہ پتھروں سے کہتے ہیں
”اول دھرتی
آخری دھرتی
دھرتی زندہ باد!“
وہ جو بارشوں کی ماند برس رہے ہی،مٹی کی طرح بھیگ رہے ہیں
وہ محبت ہیں
اور ان کو بس ایک محبت کافی ہے!!!