ان آنکھو ں میں آزادی کے خواب ہیں انہیں دفن مت کرو!
محمد خان داؤد

نہیں معلوم آزادی کے خواب کہاں جنم لیتے ہیں؟
دل میں؟ذہن میں؟قلب میں؟آنکھوں میں؟یا وہاں جہاں بس خوابوں کا جنم ہوتا ہے؟
پر آزادی کے پُر مسرت نام پر جو آنکھوں میں چمک آتی ہے وہ دل میں نہیں آتی،ہو سکتا ہے آزادی کا نام سن کر دل کی دھڑکن بڑھ جا تی ہو،ہو سکتا ہے دل کی دھڑکن بے ترتیب ہو جاتی ہو،ہوسکتا ہے!
پر آزادی کا نام سن کر جو آنکھوں میں چمک آتی ہے اس چمک کا دل کی دھڑکن سے موازنہ نہیں کیا جاسکتا!
آنکھیں،آنکھیں ہیں۔ جو جاگتی ہیں،سوتی ہیں۔ہنستی ہیں اور روتی ہیں،روتی آنکھوں میں بھی خواب ہو تے ہیں،ہنستی آنکھوں میں بھی خواب ہو تے ہیں،جاگتی آنکھوں میں بھی خواب ہو تے ہیں اور سوتی آنکھیں تو خوابوں کا آنگن ہوتے ہیں،خواب بھی ایسے جو سونے نہ دیں اور خواب بھی ایسے جو رونے نہ دیں،جب آنکھوں میں خواب سج جائیں تو نیندیں قتل ہو جاتی ہیں،پھر ان آنکھوں میں نیند نہیں خواب ہو تے ہیں،وہ خواب ان آنکھوں کا دامن پکڑ کر چلتے ہیں،وہ خواب ان آنکھوں سے کہتے ہیں ”ہمیں دیکھو،جاگتے میں بھی اور نیند میں بھی!“اگر ان آنکھوں کی پلکیں اوپر اُٹھتی رہتی ہیں تو پھر بھی خواب صوفیوں جیسا گیڑو لباس اُوڑے ان آنکھوں میں ٹھہرے رہتے ہیں۔اگر پلکیں آنکھوں پر گری رہتی ہیں تو ان آنکھوں میں خواب موالیوں کی طرح سُلفیاں پیتے رہتے ہیں۔پر میں ان خوابوں کی بات نہیں کر رہا جن خوابوں کے لیے جی ایم سید نے لکھا ہے کہ”اسے سونے دو ہو سکتا ہے کہ یہ آزادی کا خواب دیکھ رہا ہو!“اور اسے کوئی نہیں جگاتا اور وہ نہیں معلوم کیا کیا خواب دیکھ رہا ہوتا ہے،وہ سو رہا ہوتا ہے!
میں تو ان خوابوں کی بات کر رہا ہوں جن خوابوں کے لیے ایاز نے لکھا ہے کہ
”آزادی کا سفر مقتل کی گلی سے ہوکر جاتا ہے
پر آزادی کے خوابوں کی گلیاں بھی صلیب سے ہوکر گزرتی ہیں
اور جن آنکھوں میں آزادی کے خواب سج جائیں ان آنکھوں میں نیند نہیں ہو تی!“
میں ان خوابوں کی بات کر رہا ہوں جن خوابوں میں نیند نہیں ہو تی،جو خواب سونے نہیں دیتے
جو خواب آوارہ گرد ہو تے ہیں۔جن خوابوں کی یاری پہاڑوں کی چوٹیوں سے ہو تی ہے۔جو خواب چاند بہانوں میں لیکر سوتے ہیں جب بھی جب وہ آنکھیں بیدار رہتی ہیں،ان آنکھوں کے سامنے آزادی رقص کرتی گزر جاتی ہے۔۔جن آنکھوں کی نیند کہاں بستی ہے نہیں معلوم۔پر وہ آنکھیں عجب ہو تی ہیں۔
ایسی آنکھیں یا تو دیوانوں کی ہو تی ہیں،یا عاشقوں کی!
ایسی آنکھیں عقابوں کی ہو تی ہیں یا پہاڑوں کی جو ہمیشہ جاگتے رہتے ہیں
ایسی آنکھوں میں ہمیشہ رتجگوں کا موسم رہتا ہے
ایسی آنکھیں دفن نہیں ہو تی،جاگتی ہیں
ان آنکھوں میں بھی خواب تھے۔ان آنکھوں نے بھی پو ری عمر خواب دیکھے۔پر ایسا نہیں ہے کہ بس یہ آنکھیں خوابوں کے حوالے رہیں۔نہیں ایسا نہیں تھا۔اس نے آزادی سے عشق کیا۔اور اس کی آنکھوں میں آزادی کے خوابوں کا بسیرہ ہو گیا۔ایسا بسیرہ جیسا بسیرہ گلابوں میں خوشبو کا ہوتا ہے اور تتلی میں رنگوں کا،وہ آزادی کی اسیر آنکھیں تھیں۔وہ آنکھیں آزادی کا ایسا انتظار کرتا جیسا عاشق اپنی محبوبہ کے پہلے بوسے کا،آزادی ہی اس کی محبوبہ اور آزادی ہی اس کے ہونٹوں پر پہلا بوسہ دی گئی تھی،جس سے اس کے ہونٹ سُرخ رہتے اور آنکھیں جاگتی رہتی۔
ان جاگتی آنکھوں کو دفن مت کرو
ان آنکھوں میں آزادی کے خواب ہیں
ایسی آنکھیں جو بارشوں میں رو تی ہیں،اور بہاروں میں اداس رہتی ہیں
ایسی آنکھوں کو دفن مت کرو یہ امانت آنکھیں ہیں
جب دیس آزاد ہوگا تو یہ مسکرائیں گی
جاگتی آنکھوں میں نیند نہیں ہو تی،وہ آنکھیں بس محبت کی آغوش میں پلتی ہیں
ایسی آنکھیں کتابیں نہیں ہوتیں،ایسی آنکھیں خواب ہو تی ہیں اور خوابوں کو دز اور دھول کی نظر مت کرو
تم نے بس روتی،سوتی اور دفن ہو تی آنکھیں دیکھی ہیں،تم نے جل جل مشل جل جیسی آنکھیں نہیں دیکھیں،تم نے بس دز میں دھول ہو تی آنکھیں دیکھی ہیں تم نے خوابوں کی اسیر آنکھیں نہیں دیکھی،تم نے بس بستروں پر دراز ہو تی آنکھیں دیکھی ہیں،تم نے پہاڑوں کی چوٹیوں پر چاند سے عشق کرتی آنکھیں نہیں دیکھی،ان آنکھوں کی پلکوں پر مٹی مت ڈالو،یہ آکاش کی امانتاً آنکھیں ہیں ان آنکھوں کو آکاش پر تاروں کے ساتھ سجا دو!!!
جب دھرتی آزاد ہو گی تو ان آنکھوں کو شہدہ کے مقبروں میں سجا دیں گے
یہ دیس کی مینار آنکھیں ہیں
یہ دیس کے دلبر کے آنکھیں ہیں
یہ دیس کے عاشق کی آنکھیں ہیں
یہ مست آنکھیں ہیں
یہ الست آنکھیں ہیں
یہ دانشور کی آنکھیں نہیں ہیں
یہ دیوانے کی آنکھیں ہیں
اس دیوانے کی جو دیس پر جوگیوں کی طرح چلتا اور صوفیوں کی طرح سوچتا تھا۔ان آنکھوں سے علم نہیں پر عشق ٹپکتا تھا۔یہ دیش بھگت کی آنکھیں ہیں انہیں دز کے سُپرد مت کرو!
یہ آنکھیں شہد کی مکھی کی امانت ہیں
ان آنکھوں سے شہد کی مکھیاں رس چوسا کرتی تھیں
ان آنکھوں پر تتلیوں کا بسیرہ تھا
یہ تتلیوں کے رنگوں کی آنکھیں ہیں
تتلیاں ان آنکھوں سے اپنے پروں کو رنگتی تھیں
بارشوں کے بعد ان آنکھوں پرقوس قزاع کے رنگ کھل اُٹھتے تھے
یہ دیس کے ساحلوں کی آنکھیں تھیں
ان آنکھوں پر مسافر کونجیں اترا کرتی تھیں
ان آنکھوں میں اونچے پہاڑوں کی چوٹیاں مقید ہیں
ان آنکھوں سے دیس کی ہواؤں کی یاری تھی
یہ اکیلی آنکھیں تھیں
یہ تنہا آنکھیں تھیں
ان آنکھوں میں پورا دیس بھرا رہتا تھا
ان آنکھوں میں ماں کا چہرہ
اور ان آنکھوں میں محبوبہ کی مسکراہٹ بستی تھی
محبوبہ کی زلفیں،گلابی ہونٹ،سُرخ سفید گال
سفید دودھ اور پسینے میں ڈوبا وجود ان ہی آنکھوں میں تھا
ان آنکھوں کو دھول آلود مت کرو!
ان آنکھوں کو چوم لو!!!!
ان ہی آنکھوں میں دیس کا چاند تھا۔ان ہی آنکھوں میں اپنوں سے محبت تھی۔ان ہی آنکھوں میں موکھی کی محبت اور متارو کا پتا تھا۔یہ آنکھیں لطیف جیسی تھیں۔ان ہی آنکھوں میں حانی اور شہ مُرید کی کہانی تھی۔پوری پوری اور آدھی آدھی۔ابھی تو دیس نے محبت کی کہانی نہیں سنی۔ابھی تو دیس گوش گزار نہیں ہوا۔ابھی تو لطیف نے ان آنکھوں میں دیکھا نہیں۔ابھی تو لطیف پر وہ کیفیت جاگی نہیں جس کیفیت کو محسوس کرتے لطیف نے کہا تھا کہ
”اکھیون پیر کرے
پرین ء ڈے ویجے!“
اور تم ابھی سے ان آنکھوں کو دھول آلود کر رہے ہو
دفن کر رہے ہو؟!!!!
ابھی تو ہمیں لطیف سے پوچھنا ہے کہ
”سائیں وہ کون ہوتا ہے جس کے لیے آنکھیں پیر بن جاتی ہیں
اور وہ آنکھیں کون سی ہو تی ہیں جو پیروں کا سفر کرتی ہیں؟“
تو شاید سائیں جواب دے
”وہ وجود جن کی آنکھوں میں آزادی کے خواب ہو تے ہیں،ایسے وجودوں کے لیے آنکھیں پیر بن جا تی ہیں“
تو ان آنکھوں کو بھی دفن مت کرو ان آنکھوں میں آزادی کے خواب ہیں
سورج کو ڈھلنے دو
شام ہونے دو
ان آنکھوں کو جلنے دو!!!
ان آنکھوں میں آزادی کے خواب منتظر ہیں
انہیں چاند سے ملنے دو
تم چاند کو دفن نہیں کر سکتے
تم خواب کو دفن نہیں کر سکتے!!!!