صحافی ارشد شریف کے قتل کی تحقیقات کے لیے ازخود نوٹس کی سماعت غیر معینہ مدت تک ملتوی

صحافی ارشد شریف کے قتل کی تحقیقات کے لیے ازخود نوٹس کی سماعت آج سپریم کورٹ آف پاکستان میں ہوئی۔
اس کیس کی سماعت جسٹس منصور علی شاہ کی سربراہی میں تین رکنی بینچ کر رہا ہے جس میں جسٹس نعیم اختر افغان اور جسٹس شاہد بلال حسن بھی شامل ہیں۔
صحافی ارشد شریف کے قتل کی تحقیقات کے لیے ازخود نوٹس کی سماعت کے دوران اٹارنی جنرل، ڈی جی ایف آئی اے، سیکریٹری داخلہ اور آئی جی اسلام آباد سمیت دیگر فریقین کو بھی نوٹس جاری کیے ہیں۔ آج دورانِ سماعت اٹارنی جنرل منصور عثمان اعوان عدالت میں پیش ہوئے۔
آج کی سماعت کے دوران اٹارنی جنرل منصور عثمان اعوان نے عدالت کے سامنے عبوری رپورٹس پیش کیں۔ اُن کا کہنا تھا کہ ’مشترکہ قانونی معاونت کا مسودہ تیار کر لیا گیا ہے اور کابینہ کے آئندہ اجلاس میں منظوری ہو جائیگی۔‘
اس پر جسٹس منصور علی شاہ نے اٹارنی جنرل سے سوال کیا کہ ’کیا کینیا کی عدالت سے بھی کوئی فیصلہ آیا ہے؟‘ جس پر اُن کا کہنا تھا کہ ’جی بالکل وہ فیصلہ بھی آ چکا ہے۔‘
ازخود نوٹس کیس کی سماعت کے دوران عدالت میں موجود وکیل شوکت عزیز صدیقی نے کہا کہ ’میں نے ایک درخواست ارشد شریف کے خاندان کیجانب سے دائر کی تھی، جو لوگ پاکستان میں دعوی کر رہے ہیں کہ انہیں قاتلوں کا علم ہے انکو تو بلائیں۔ ہم نے چھ لوگوں کے نام بھی عدالت کے سامنے رکھے تھے۔ لارجر بینچ نے درخواست ناقابل سماعت قرار دیکر خارج کر دی تھی۔‘
شوکت عزیز صدیقی کا مزید کہنا تھا کہ ’عدالت نے قرار دیا تھا کہ سپریم کورٹ ایک سہولت کار کا کردار ادا کر رہی ہے۔ اب مجھے نہیں معلوم کسے سہولت فراہم کی جا رہی ہے۔‘
جس پر جسٹس منصور علی شاہ نے انھیں مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ ’صدیقی صاحب یہ ایک انتہائی اہم معاملہ ہے جس پر سماعت ہونی چاہیے۔ سپریم کورٹ نے مقدمہ پانچ رکنی بینچ کے سامنے مقرر کرنے کیلئے فائل کمیٹی کو بھجوا دی۔ یہ مقدمہ پہلے پانچ رکنی بنچ سن رہا تھا۔ غلطی سے یہ کیس تین رکنی بینچ کے سامنے مقرر ہوگیا ہے۔‘
جسٹس منصور علی شاہ نے ریمارکس دیے کہ ’جسٹس جمال مندوخیل اور جسٹس محمد علی مظہر پہلے بینچ میں شامل تھے، دونوں ججز کی دستیابی پر ہی کیس دوبارہ مقرر ہوگا۔
صحافی ارشد شریف کے قتل کی تحقیقات کے لیے ازخود نوٹس کی آج ہونے والی سماعت کے بعد عدالت نے آئندہ سماعت غیر معینہ مدت تک ملتوی کر دی۔