گوادر میں فائرنگ سے ایک شخص ہلاک، ’بلوچ قومی اجتماع‘ میرین ڈرائیو پر منعقد کرنے کا اعلان,محمد کاظم، بی بی سی اردو، کوئٹہ

بلوچستان کے ساحلی شہر گوادر میں اتوار کو فائرنگ سے ایک شخص ہلاک اور کم از کم دو افراد زخمی ہو گئے ہیں۔
مکران ڈویژن کی انتظامیہ سے تعلق رکھنے والے ایک اہلکار نے نام نہ ظاہر کرنے کی شرط پر بتایا ہے کہ مظاہرین اور سکیورٹی فورسز کے درمیان جھڑپیں ہوئی ہیں۔
اس حوالے سے صورتحال غیر واضح ہے تاہم اہلکار کا کہنا ہے کہ زخمی ہونے والوں میں سے دو افراد کو پیروں پر گولی لگی جبکہ ایک کو پیٹ پر گولی لگی تھی۔ اہلکار نے بتایا کہ جس شخص کو پیٹ پر گولی لگی وہ زخموں کی تاب نہ لاسکا۔
موبائل فون اور پی ٹی سی ایل نیٹ ورک بند ہونے سے گوادر میں بلوچ یکجہتی کمیٹی کے رہنماؤں سے اس سلسلے میں رابطہ نہیں ہوسکا۔ تاہم مستونگ میں دھرنے میں موجود بلوچ یکجہتی کمیٹی کے رہنما بیبرگ بلوچ نے الزام عائد کیا کہ ’بلوچی راجی مچی‘ یعنی بلوچ قومی اجتماع میں شرکت کے لیے آنے والے لوگوں پر سکیورٹی فورسز نے بلاجواز فائرنگ کی جس کے باعث ایک شخص زندگی سے ہاتھ دھو بیٹھا۔
ترجمان بلوچستان حکومت نے سنیچر کو کہا تھا کہ سکیورٹی فورسز کی طرف سے فائرنگ کی اطلاعات غیر مصدقہ ہیں۔
اتوار کو بیبرگ بلوچ نے دعویٰ کیا کہ فائرنگ سے مزید زخمی ہونے والوں کی تعداد آٹھ ہے، جو سنیچر کو 14 بتائی گئی تھی۔ موبائل فون اور پی ٹی سی ایل کا نیٹ ورک بند ہونے سے گوادر کی اصل صورتحال بھی سامنے نہیں آرہی ہے لیکن مکران ڈویژن کی انتظامیہ کے اہلکار کا دعویٰ ہے کہ تاحال وہاں حالات کنٹرول میں ہیں۔
بلوچستان نیشنل پارٹی، نیشنل پارٹی اور حق دو تحریک نے بلوچ یکجہتی کمیٹی کے قافلوں پر فائرنگ کی مذمت کی ہے۔
بلوچ یکجہتی کمیٹی نے بلوچ قومی اجتماع میرین ڈرائیو پر منعقد کرنے کا اعلان کیا ہے۔ اہلکار کے مطابق اس وقت میرین ڈرائیو کے علاقے میں گوادر سے تعلق رکھنے والے افراد موجود ہیں لیکن صورتحال کنٹرول میں ہے۔
انھوں نے بتایا کہ گوادر سے باہر سے آنے والے افراد کی ایک بہت بڑی تعداد کو تلار کے مقام پر سکیورٹی فورسز نے روکا ہے۔ انھوں نے کہا کہ وہاں حالات خراب ہونے اور روکے جانے والے لوگوں کے گوادر پہنچنے کی صورت میں شاید صورتحال کنٹرول سے باہر سے ہوجائے۔
خیال رہے کہ تلار کی طرح بلوچستان کے مختلف علاقوں میں حکومت نے شاہراؤں کو بند کرکے لوگوں کو گوادر جانے سے روک رکھا ہے۔ بلوچستان حکومت کے ترجمان شاید رند نے اس کی وجہ یہ بتائی کہ بلوچ یکجہتی کمیٹی نے گوادر میں جلسے کی اجازت نہیں لی ہے۔
بلوچستان میں ماضی میں امن و امان کے پیش نظر کسی علاقے میں صرف موبائل فون سروس معطل رہی ہے لیکن گوادر میں پی ٹی سی ایل نیٹ ورک کو بھی بند کیا گیا ہے۔
ڈاکٹر ماہ رنگ سے رابطوں کے حوالے سے سوال پرانتظامیہ کے اہلکار نے بتایا کہ فون سروس جب تک بحال تھی توانتظامیہ کا بلوچ یکجہتی کمیٹی کی رہنما ڈاکٹر ماہ رنگ بلوچ اور یکجہتی کمیٹی کے دیگر رہنمائوں سے رابطہ تھا لیکن اب فون بند ہونے سے ان سے رابطہ نہیں ہو پا رہا ہے۔
محکمہ داخلہ کے اہلکار کے مطابق گذشتہ روز تک ڈپٹی کمشنر گوادر براہ راست اور علاقائی عمائدین کے ذریعے ڈاکٹر ماہ رنگ سے رابطے میں تھا اور وہ بڑی حد تک انھیں جلسے کی جگہ تبدیل کرنے کے لیے قائل بھی کرچکے تھے لیکن مستونگ میں گوادر آنے والے قافلے پر فائرنگ کے بعد ڈاکٹر ماہ رنگ نے جگہ تبدیل کرنے سے انکار کیا اور یہ کہا کہ اب وہ ہرحال میں میرین ڈرائیو پر جلسہ کریں گی۔
اہلکار نے الزام عائد کیا کہ بلوچ یکجہتی کمیٹی کی جانب سے لچک کا مظاہرہ نہ ہونے کی وجہ سے اب تک بات چیت میں پیشرفت نہیں ہوسکی ورنہ انتظامیہ کی جانب سے جلسے کے انعقاد کے لیے انھیں دو تین متبادل جگہوں کی پیش کش کے علاوہ تلار سے راستہ کھولنے کی بھی پیشکش کی گئی تھی۔ موبائل فون سروس معطل ہونے سے ڈاکٹر ماہ رنگ سے رابطہ نہ ہونے کے باعث اس سلسلے میں ان کا موقف معلوم نہیں ہوسکا۔
تاہم گذشتہ روز انھوں نے بی بی سی کو بتایا تھا کہ حکومت ان کو جلسہ منعقد نہیں کرنے دے رہی ہے۔ دوسری جانب گذشتہ روز کوئٹہ سے گوادر جانے والے قافلے پر مستونگ میں فائرنگ اور گوادر کے لیے بلوچستان کے دیگر علاقوں سے جانے کی اجازت نہ دینے پر کوئٹہ شہر کے بعض حصوں کے علاوہ بلوچستان کے بیشتر علاقوں میں شٹر ڈاؤن ہڑتال رہی۔
کوئٹہ اور بلوچستان کے دیگر علاقوں میں احتجاجی مظاہروں کا سلسلہ بھی جاری رہا۔ حکومت کی جانب سے گوادر لوگوں کو جانے سے روکنے کے لیے شاہراہوں کی بندش اور اس کے خلاف شٹرڈاؤن ہڑتال اور احتجاج کی وجہ سے بلوچستان کے بیشتر علاقوں میں معمولات زندگی مفلوج رہیں۔