!وہ پشتون دھرتی کا چمکتا سورج تھا
دھرتی کا چمکتا سورج تھا

محمد خان داؤد
وہ دھرتی کو شاعری جیسی تتلی سے پرو رہا تھا
اس کے ہاتھوں میں قلم تھا اور وہ دھرتی کو ایسے رنگوں سے بُن رہا تھا جیسے محبت میں ماں بن جانے والی لڑکیاں نئے مہمان کے لیے سردی کا معصوم سوئیٹر بنتی ہیں
رنگوں سے مہمیز اور نرم وملائم!
ایسا معلوم ہوتا تھا کہ اس کے ہاتھوں میں اک ایسا برش ہے جو مہان آرٹسٹ کینواس پر ماریں اور کینواس پر شہکار تصویر اُگ آئے۔اس نے بھی اپنے قلم کو برش کی ماند استعمال کیا اور شہکار نظمیں تخلیق کیں۔ایسی نظمیں جو اپنے آپ میں رنگ بھی ہیں اور تتلی بھی۔سورج بھی ہے اور کرنیں بھی۔بادل بھی ہیں اور بارش کے قطرے بھی۔آپ جب بھی اس کی نظمیں پڑھیں گے تو اپنے آپ کو بھیگا بھیگا محسوس کریں گے۔شاعری اک ردھم ہے اور انسان اس ردھم میں کھو سا جاتا ہے۔شاعری سازو آواز کی دنیا ہے۔اس میں یہ ضروری نہیں کہ ہم اس زباں سے بھی واقف ہوں جس میں شاعری کی جا رہی ہو۔نہیں ایسا نہیں ہے۔ہم جب رومی کو سنتے ہیں تو ہم رومی کی زباں سے واقف نہیں پر نہیں معلوم ہم کہاں پہنچ جا تے ہیں،شاعری جسم کے کانوں سے نہیں قلب کے کانوں سے سنی جا تی ہے۔شاعری دل میں سوز کی طرح پیوست ہو جا تی ہے اور انسان اک نئے درد سے واقف ہوکر جاگ اُٹھتا ہے۔اس کی شاعری بھی قلب سے سنی جا رہی تھی۔بابا باچا خان کی دھرتی پر نہیں پر حکمت یار کی دھرتی پر بھی اس کے الفاظوں کا جادو تھا۔بس لکیر کے اِس پار نہیں۔پر لکیر کے اُس پار بھی اسی کے الفاظوں میں محبت کی جا رہی تھی۔بس سوات کی وادیوں میں نیلگوں پانی اس کے الفاظوں میں رقص نہیں کر رہا تھا پر گدیر کی ندیوں کے پانیوں میں بھی اس کے الفاظوں کی کشتیاں چل رہی تھیں۔بس پشاور کے علمی اداروں میں اس کے گیت نہیں گائے جاتے پر کابل یونیورسٹی میں بھی اس کا بول بالا ہے۔وہ محبت کی زباں تھا۔محبت کی زباں کے لیے کسی بھی زباں کا ہونا ضروری نہیں بس احساس کا ہونا ضروری ہے۔وہ اک احساس تھا۔محبت نامے اس کے الفاظوں سے شروع ہو تے اور اسی کے الفاظوں سے ختم ہوتے۔بس پشاور کے پہاڑوں پر اس کی شاعری سے گھاس نہیں اُگتی۔پر ڈیورڈ لائن کے اس پار پہاڑوں پر بھی گھاس اس کے الفاظوں کے اُگ رہی ہے۔ایسی گھاس جس گھاس کو نہ گدھے اپنے پیروں سے روند سکتے ہیں اور نہ بندوق گھائل کر سکتی ہے۔تم اک شاعر کے سینے میں تو گولی اتار سکتے ہو۔پر لہلاتی گھاس کو کس بندوق سے گھائل کرو گے؟
وہ پشتون دھرتی کا چمکتا سورج تھا!تم ہزاروں گولیاں آکاش پر برساؤ۔سورج اپنے وقت پر طلوح ہوگا۔طلوح ہو رہا ہے۔اور کل بھی طلوح ہوگا۔سورج کو بھونکتی بندوقیں گھائل نہیں کرتی۔
وہ اپنے الفاظوں میں سورج ہے۔طلوح ہے۔طلوح ہو رہا ہے۔ہر روز طلوح ہوتا رہے گا!
بس قلم رُک گیا ہے۔پر جہاں بھی قلم رکا ہے،وہ قلم ہمیں بتا رہا ہے کہ قلم بندوق سے زیا دہ طاقتور ہے۔جیسے ہی بندوق قلم کو قتل کرتی ہے تو قلم پھر سے ہمیشہ ہمیشہ کے لیے زندہ ہو کر لوٹ آتا ہے۔اس کا قلم بھی گھائل ہوا ہے اور اب ہمیشہ ہمیشہ کے لیے زندہ ہو کر لوٹ آئے گا۔
جس کے لیے اوشو نے کہا تھا کہ
”جو بیج دھرتی میں گھیرا دفن ہوتا ہے۔وہ اتنا ہی زیا دہ طاقتور ہوکر نکلتا ہے!“
وہ محبت کا پہلا جھونکا تھا۔وہ بہت خوبصورت تھا۔اسی لیے شاعر تھا۔اگر وہ خوبصورت نہ ہوتا تو شاعر بھی نہ ہوتا۔وہ دھرتی کا سہانا خواب تھا۔وہ چاہتا تھا دھرتی ماں کے سینے جیسی ہو جہاں بس زندگی ہی زندگی ہے۔وہ چاہتا تھا دھرتی بس محبوبہ کے بوسوں جیسی ہو جہاں خوشبو ہی خوشبو ہوتی ہے۔وہ چاہتا تھا کہ دھرتی ماں کے گود جیسی ہو جہاں بس سکون ہی سکون ہوتا ہے۔وہ چاہتا تھا کہ دھرتی بس محبوبہ کے بہانوں جیسی ہو جہاں بس دلوں کا ملن ہو۔وہ ایسی دھرتی نہیں چاہتا تھا جہاں بس انسانوں کی تذلیل ہوتی ہو،جہاں ماؤں کی آنکھوں میں انتظار ٹھہر جاتا ہے،جہاں ماؤں کو مسافر بنا دیا جاتا ہے،جہاں ماؤں کے دوپٹے کہنچے جاتے ہیں۔جہاں بس مائیں روتی ہیں اور اداس رہتی ہیں۔وہ ایسی دھرتی نہیں چاہتا تھا۔وہ تو بس ایسی دھرتی چاہتا تھا جہاں پکھیڑو اور خواب آزاد ہوں۔جہاں خوشبو اور رنگ آزاد ہوں۔جہاں پہاڑوں کے دامنوں میں سازشیں نہ ہو تی ہوں پرمحبت کے پھول کھلتے ہوں،جہاں پہاڑوں کی چوٹیوں پر بیٹھ کر چاند سے باتیں ہو تی ہوں۔جہاں آزادی سے محبت بغلگیر ہوتی ہو۔جہاں کبھی آنکھیں اور دل اداس نہ ہوتے ہوں۔جہاں کبھی مائیں ماتمی لباس میں نہ ہوں۔جہاں محبوبہ کے ہونٹ چومنے کی آزادی ہو۔جہاں باتیں مختصر اور محبت طویل ہو!
وہ طویل محبت کا شاعر تھا۔
وہ چاند جیسا تھا۔
وہ خوشبو بن کر اک پشتون ماں کے گود میں اترا
وہ عیسیٰ کے زمانے میں پیدا ہوتا تو مصلوب کیا جاتا!
اور اس کی ماں مریم کی طرح ہجوم ِ یاراں کے ساتھ چلتی رہتی
وہ پہاڑوں کا نا خدا تھا
اس کے ہاتھ میں موسیٰ کی طرح عصا تھا
وہ پہاڑوں کے ساتھ طویل کھچیریاں کرتا
اور جاتے جاتے پہاڑوں پر اک نظم کندہ کر جاتا
تم اسے تو قتل کر سکتے ہو،پر پہاڑوں پر کندہ نظم کو کیسے قتل کر سکتے ہو؟
ایسے شاعر بہت کم زندگی جیتے ہیں اور ہمیشہ ہمیشہ کے لیے امر ہو جا تے ہیں
نہ تم لطیف کو قتل کر سکے ہو اور نہ تم گل زمین کو قتل کر سکتے ہو
تم سے تو طاہرہ ہی قتل نہیں ہو ئی
تم تو آج تک اس کا خون اپنے کاندھوں پر لیے گھوم رہے ہو
ایسے شاعر صبح ہو تے ہیں،شام ہو تے ہیں
اور دھرتی کی صبحیں اور شامیں قتل نہیں ہو تی!