قیدی نمبر 804 اور ہمارا مستقبل

محمد حنیف

ایک 18 سالہ نوجوان سے ملا۔ اس نے ووٹ بھی خود رجسٹر کروایا، ایک واٹس ایپ گروپ بھی بنایا، خاندان کے بڑوں سے ووٹ ڈالنے سے پہلے مشورہ بھی نہیں کیا، برادری کے امیدوار کو کوئی گھاس نہیں ڈالی۔ ووٹ ڈالنے کے بعد پولنگ سٹیشن پر موجود بھی رہا، فارم 45 کی تصویریں بھی لیں اور اپنے گروپ میں شیئر بھی کیں۔

آپ سمجھ ہی گئے ہوں گے کہ اس نے ووٹ کس جماعت کو دیا ہے، ساتھ یہ بھی بتایا کہ اپنے قیدی لیڈر کو ووٹ نہیں دیا میں نے تو نظام کے خلاف ووٹ دیا ہے۔

اس کا ولولہ دیکھ کرمجھے یہ کہنے کی ہمت نہیں ہوئی کہ بیٹا اگر تمارے ووٹ سے نظام بدل سکتا تو نظام تمھیں ووٹ ڈالنے کی اجازت ہی کیوں دیتا۔

ایک 10 سالہ بچے نے بھی ٹی وی پر لگی الیکشن کی رونق دیکھی تو پوچھا کہ کون جیتا۔ بتایا کہ جیتنے والا تو جیل میں ہے۔ اس نے پوچھا کہ کیا کوئی قیدی بھی وزیراعظم بن سکتا ہے اور کیا وہ پھر وزیراعظم بن کر اپنی قید ختم کرنے کا حکم دے سکتا ہے؟

بی بی سی

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button