آئینی ترامیم کی منظوری کا معاملہ موخر کرتے ہوئے سیاسی جماعتوں سے مشاورت

حکومتی جماعتوں کی جانب سے بظاہر 26ویں آئینی ترمیم کے لیے پارلیمانی اکثریت کے حصول میں ناکامی کے بعد آئینی ترامیم کی منظوری کا معاملہ موخر کرتے ہوئے سیاسی جماعتوں سے مشاورت کے لیے چیئرمین پاکستان پیپلز پارٹی بلاول بھٹو کو کردار ادا کرنے پر اتفاق کیا گیا ہے۔
یہ پیشرفت گزشتہ رات وزیر اعظم شہباز شریف اور چیئرمین پاکستان پیپلز پارٹی بلاول بھٹو کے درمیان ہونے والی ملاقات کے بعد سامنے آئی۔
وزیر اعظم ہاؤس کی جانب سے جاری اعلامیے کے مطابق وزیرِ اعظم شہباز شریف سے چیئرمین بلاول بھٹو زرداری کی قیادت میں پاکستان پیپلز پارٹی کے وفد نے ملاقات کی جس میں سید خورشید احمد شاہ، سید نوید قمر اور مئیر کراچی مرتضیٰ وہاب بھی شامل تھے۔
اعلامیے کے مطابق ملاقات میں مجوزہ آئینی ترمیم پر تفصیلی تبادلہ خیال ہوا اور مشاورت کو وسیع کرنے پر اتفاق کے ساتھ ساتھ یہ فیصلہ بھی لیا گیا کہ چئیر مین پاکستان پیپلز پارٹی بلاول بھٹو زرداری اور پاکستان پیپلز پارٹی کے دیگر سینیئر رہنما بھی مشاورت میں اپنا کردار ادا کریں گے۔
اس موقع پر وزیر اعظم شہباز شریف نے کہا کہ ’آئین میں ترمیم اور قانون سازی پارلیمنٹ کا اختیار ہے اور پارلیمنٹ بالادست ادارہ ہے۔‘
شہباز شریف کا کہنا تھا کہ ’مجوزہ آئینی ترمیم کا مقصد عوام کو انصاف کی فوری اور موثر فراہمی ہے اور آئینی ترمیم پر تمام سیاسی جماعتوں سے مشاورت کا سلسلہ جاری رہے گا۔‘
دونوں رہنماؤں کی ملاقات میں اعلامیے کے مطابق، اتفاق کیا گیا کہ ’آنے والے دنوں میں سیاسی جماعتوں کے ساتھ مزید بات چیت اور مشاورت سے کسی نتیجے پر پہنچنے کی کوشش کی جائے گی۔‘
آئینی ترمیم میں کیا ہے؟
واضح رہے کہ کئی روز سے ملک میں یہ چہ مگوئیاں کی جا رہی ہیں کہ حکومت عدالتی اصلاحات کا ارادہ رکھتی ہے۔
ان میں ملک کے موجودہ چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ سمیت اعلی عدلیہ کے ججز کی ریٹائرمنٹ کی عمر بڑھانے کی تجویز شامل ہے۔
اس کے ساتھ ساتھ اعلی عدلیہ میں ججز کی تعیناتی کے لیے جوڈیشل کمیشن اور ججز کی تعیناتی سے متعلق پارلیمانی کمیشن کی ازسرنو تشکیل بھی زیر غور ہے۔
تاحال سرکاری سطح پر ان ترامیم کا مسودہ جاری نہیں کیا گیا تاہم حکومتی ذرائع کی جانب سے بی بی سی کے ساتھ آئینی ترمیمی بِل کا مسودہ شیئر کیا گیا، جس میں مجموعی طور پر 54 تجاویز شامل کی گئی ہیں۔
اس بِل میں آئین کے آرٹیکل 63 اے میں بھی ترمیم کی تجویر دی گئی، جس کے مطابق پارلیمانی پارٹی کی ہدایات کے خلاف کسی بھی قانون سازی یا بِل پر ووٹ دینے والے رُکن پارلیمان کا ووٹ گنتی میں شمار کیا جائے گا۔
اس کے علاوہ آئینی عدالت بنانے کا بھی ذکر کیا گیا، جس میں صرف آئینی معاملات ہی بھیجے جائیں گے اور اس کے ساتھ ساتھ سپریم جوڈیشل کونسل اور ججز کی تعیناتی سے متعلق پارلیمانی کمیٹی کی فارمیشن تبدیل کرنے کی تجویز بھی لائی جا رہی ہے۔
آئینی بِل میں تجویز دی گئی کہ آئینی عدالت کے پہلے چیف جسٹس کی تقرری وزیراعظم کی سفارش پر صدرِ پاکستان کریں گے۔ اس کے بعد مستقبل میں وفاقی آئینی عدالت کے چیف جسٹس کی تقرری کے لیے تین ججوں کے نام قومی اسمبلی کی کمیٹی تین سینیئر ججوں کے نام چیف جسٹس کی ریٹائرمنٹ سے سات دن پہلے وزیرِ اعظم بھیجے گی۔