امیر بالاج ٹیپو کے قتل کے ملزم احسن شاہ ’اپنے ساتھیوں کی فائرنگ سے ہلاک‘، پولیس کا دعویٰ

لاہور پولیس کے آرگنائزڈ کرائم یونٹ کے ڈی آئی جی عمران کشور کا دعویٰ ہے کہ ٹیپو ٹرکاں والے کے بیٹے امیر بالاج ٹیپو کے قتل کے مقدمے میں مرکزی ملزم احسن شاہ ’اپنے ساتھیوں کی فائرنگ سے ہلاک ہوگئے ہیں۔‘ تاہم ان کے اہل خانہ نے اسے مسترد کیا ہے اور اس واقعے کو ایک ’ناجائز قتل‘ قرار دیا ہے۔
فروری 2024 کے دوران امیر بالاج ٹیپو کو ایک شادی کی تقریب کے دوران فائرنگ کر کے قتل کر دیا گیا تھا۔ بالاج کے محافظوں کی جوابی فائرنگ سے حملہ آور کی موقع پر ہلاکت ہوگئی تھی تاہم پولیس کا دعویٰ تھا کہ احسن شاہ نے شادی سے قبل ریکی کر کے حملہ آور کو معلومات فراہم کی تھی۔
اب لاہور پولیس کے آرگنائزڈ کرائم یونٹ کا ایک بیان میں دعویٰ ہے کہ احسن شاہ جمعے کو ’اپنے بھائی علی رضا اور دیگر نامعلوم ساتھیوں‘ کی فائرنگ کے نتیجے میں ہلاک ہوئے ہیں۔
پولیس کا دعویٰ ہے کہ وہ ’ملزم کو برائے نشان دہی اور ساتھی ملزمان کی گرفتاری کے لیے تھانہ شاد باغ لے جا رہی تھی‘ جس دوران احسن شاہ کے ساتھیوں نے انھیں ’چھڑانے کے لیے پولیس پارٹی پر اندھا دھند فائرنگ کر دی۔‘
’ساتھیوں کی فائرنگ سے ملزم احسن شاہ شدید زخمی ہو گیا جس کو ہسپتال منتقل کیا جا رہا تھا لیکن وہ راستے میں ہی دم توڑ گیا۔‘
آرگنائزڈ کرائم یونٹ نے اپنے بیان میں مزید کہا کہ ’ملزمان کی فائرنگ سے پولیس اہلکار معجزانہ طور پر محفوظ رہے جبکہ ہلاک ہونے والے ملزم کے دیگر ساتھی اندھیرے کا فائده اٹھاتے ہوئے فرار ہو گئے۔ ملزمان کی گرفتاری کے لیے علاقے میں سرچ آپریشن جاری ہے۔‘
’میرے بیٹے کو ناجائز قتل کیا گیا‘
دوسری طرف احسن شاہ کی والدہ نے یہ الزام عائد کیا ہے کہ ان کے بیٹے کو ’ناجائز قتل‘ کیا گیا ہے۔
صحافیوں کو دیے ایک انٹرویو میں ان کا کہنا تھا کہ ان کی اپنے بیٹے سے ہر جمعے کو ملاقات ہوتی تھی اور وہ بتا چکا تھا کہ ’یہ مجھے زندہ نہیں چھوڑیں گے۔‘
انھوں نے پولیس کے بیان کو مسترد کرتے ہوئے کہا کہ ’میری آنکھوں کے سامنے وہ اسے ڈالے میں بٹھا کر لے گئے تھے‘ اور جس دوسرے بیٹے پر فائرنگ کا الزام عائد کیا گیا ہے ’اس کا وہاں کوئی وجود نہیں تھا۔‘
احسن شاہ کی والدہ کا کہنا تھا کہ وہ اپنے بیٹے کو اس وقت تک دفن نہیں کریں گی جب تک انھیں انصاف نہیں ملتا۔ انھوں نے اس قتل کا الزام ’مخالف پارٹی‘ پر عائد کیا ہے۔
مقامی ذرائع ابلاغ پر اس واقعے کے لیے ’مبینہ مقابلے‘ کے الفاظ استعمال کیے جا رہے ہیں۔ یہ پہلی بار نہیں ہوگا کہ پولیس کی تحویل میں کسی ملزم کی ایک ’مبینہ پولیس مقابلے‘ میں ہلاکت ہوئی ہو۔
سالہا سال سے پاکستان کے مختلف شہروں میں رپورٹ ہونے والے پولیس انکاؤنٹرز یا ’پولیس مقابلوں‘ پر درج مقدمات کی تحریر ہمیشہ سے ہی ملتی جلتی ہے جس میں عموماً مشتبہ ملزمان پہلے ’پولیس پر فائرنگ‘ کرتے ہیں اور بعدازاں ’اپنے ہی ساتھیوں کی فائرنگ کا نشانہ‘ بن کر ہلاک ہو جاتے ہیں۔
یوں ہائی پروفائل کیسز میں جرم ثابت کرنے اور سزا کے عمل سے گزرے بغیر ہی کیس بند ہو جاتے ہیں۔