سپریم کورٹ میں مبارک ثانی کیس کے فیصلے کے خلاف وفاق کی متفرق درخواست کی سماعت شروع

چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کی سربراہی میں سپریم کورٹ کا تین رکنی بینچ مبارک احمد ثانی کیس کے فیصلے کے خلاف وفاق کی متفرق درخواست کی سماعت کررہا ہے۔
توہینِ مذہب کے مقدمے میں گرفتار ملزم مبارک احمد ثانی کی درخواستِ ضمانت پر چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کی سربراہی میں دو رکنی بینچ نے چھ فروری 2024 کو انھیں ضمانت پر رہا کردیا تھا جس کے بعد چیف جسٹس کے خلاف سوشل میڈیا پر ایک منظم مہم شروع ہو گئی تھی۔ بعد ازاں اس مہم میں ملک کی مذہبی جماعتیں بھی شامل ہو گئی تھی۔
مبارک ثانی کیس کیا ہے اور یہ معاملہ اتنا متنازع کیوں؟
چیف جسٹس قاضی فائز عیسی کی سربراہی میں سپریم کورٹ کے دو رکنی بینچ کے سامنے چھ فروری کو ملزم کی ضمانت اور فردِ جرم سے بعض الزامات حذف کروانے کی درخواست سماعت کے لیے مقرر ہوئی جو لاہور ہائیکورٹ سے ضمانت مسترد ہونے کے بعد 16 اور 27 نومبر 2023 کے فیصلوں کے خلاف دائر کی گئی تھی۔
ملزم پر چھ دسمبر 2022 کو ضلع چنیوٹ میں درج ایف آئی آر کے مطابق صوبہ پنجاب میں قرآن کی طباعت کے قانون 2011، تعزیراتِ پاکستان کی دفعہ 298 سی اور دفعہ 295 بی کے تحت تین الزامات لگائے گئے تھے۔
ایف آئی آر میں الزام عائد کیا گیا تھا کہ ملزم ممنوعہ کتاب ’تفسیرِ صغیر‘ تقسیم کر رہا تھا جبکہ ضمانت کی درخواست میں ملزم کے وکیل کا مؤقف تھا کہ ایف آئی آر کے مطابق اس جرم کا ارتکاب 2019 میں کیا گیا جبکہ کسی بھی ممنوعہ کتاب کی تقسیم یا اشاعت کو پنجاب قرآن شریف (ترمیم) قانون کے تحت سنہ 2021 میں جرم قرار دیا گیا تھا۔
جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے فیصلے میں کہا تھا کہ چونکہ سنہ 2019 میں ممنوعہ کتاب کی تقسیم جرم نہیں تھی اس لیے درخواست گزار پر یہ فردِ جرم عائد نہیں کی جا سکتی۔
فیصلے کے مطابق ’آئین نے قرار دیا ہے کہ کسی شخص پر ایسے کام کے لیے فردِ جرم عائد نہیں کی جا سکتی جو اس وقت جرم نہیں تھا، جب اس کا ارتکاب کیا گیا۔‘
اس حوالے سے فیصلے میں آئین کی دفعہ 12 (1) کا حوالہ دیا گیا۔
عدالت کا کہنا تھا کہ اس مقدمے میں اگر ملزم کو کسی جرم پر سزا ہو سکتی ہے وہ ’تفسیر صغیر‘ نامی کتاب کی اشاعت اور اس کی تقسیم کا جرم ہے جس کی سزا چھ ماہ قید ہے اور ملزم پہلے ہی ایک سال سے زیادہ عرصہ جیل میں گزار چکا ہے۔
ضمانت کی درخواست منظور کرتے ہوئے چیف جسٹس کا کہنا تھا کہ لاہور ہائی کورٹ کے ججوں نے ملزم کی ضمانت کی درخواستیں مسترد کرتے ہوئے اس نکتے کو نظر انداز کیا۔