غزہ میں جنگ بندی بائیڈن پلان کے تحت ہونی چاہیے: حماس

حماس نے کہا ہے کہ غزہ میں جنگ بندی کے لیے شروع کیے جانے والے مذاکرات امریکی صدر جو بائیڈن کے گذشتہ پلان کے تحت ہونے چاہیں اور کسی نئے دور کے مذاکرات سے اسرائیل کو مزید جارحیت کا وقت نہ دیا جائے۔ حماس نے کہا کہ مصالحت کار اسرائیل پر دباؤ ڈالیں کہ وہ اس پلان پر عملدرآمد کرے۔
گذشتہ ہفتے بین الاقوامی مصالحت کار قطر، مصر اور امریکہ نے اسرائیل اور حماس پر زور دیا تھا کہ وہ جنگ بندی اور مغویوں کی رہائی سے متعلق مذاکرات کا حصہ بنیں۔
جمعرات کو اسرائیل نے اس کے جواب میں کہا ہے کہ وہ ان مذاکرات میں اپنی مصالحت کاروں کی ایک ٹیم بھیجے گا۔
واضح رہے کہ گذشتہ ہفتے جنگ بندی سے متعلق مذاکرات اس وقت ختم ہو گئے جب مئی میں امریکی صدر جو بائیڈن نے مذاکرات کے فریم ورک کے لیے نئی شرائط رکھیں۔
گذشتہ ہفتے ایک مشترکہ بیان میں ثالث ممالک نے کہا ہے کہ دوحہ یا قاہرہ میں مذاکرات 15 اگست کو ہوں گے۔
ان ممالک نے اسرائیل اور حماس پر زور دیا کہ وہ اپنے درمیان اختلاف کو کم کریں اور بغیر کسی تاخیر کے جنگ بندی کے معاہدے پر عمل پیرا ہوں۔
ان ثالث ممالک نے کہا کہ فریم ورک ایگریمنٹ صدر بائیڈن کی طرف سے پیش کردہ 31 مئی کے پلان کے مطابق ہونا چاہیے۔ خیال رہے کہ صدر بائیڈن کے پلان کے تحت غزہ میں مکمل جنگ بندی اور حماس کے زیر حراست مغویوں کی رہائی کی شرائط عائد کی گئی ہیں ۔
اپنے ایک بیان میں حماس نے کہا ہے کہ جنگ بندی کا یہ معاہدہ صدر بائیڈن کے پلان کے عین مطابق ہونا چاہیے۔ حماس نے کہا ہے کہ بجائے کسی نئے مذاکرات کے دور میں داخل ہونے کے وہ اس نکتے سے ہی بات چیت کو دوبارہ شروع کرنا چاہتے ہیں جہاں سے ان کا اختتام ہوا تھا۔
حماس نے کہا کہ ثالث ممالک مذاکرات کے نام پر اسرائیل کو مزید جارحیت کے لیے وقت نہ دیں بلکہ جو پلان پیش کیا گیا ہے اس پر عملدرآمد کو یقینی بنایا جائے اور اسرائیل پر دباؤ ڈالا جائے۔