اقلیتی حقوق مارچ: کراچی اور اسلام آباد میں اجازت، سکھر میں شرکا کی حفاظت کے پیشِ نظر ریلی منسوخ

اسلام آباد، کراچی اور سکھر میں اقلیتی حقوق مارچ کے لیے حکومت نے پہلے اجازت دی اور پھر بعد میں سکیورٹی کے پیشِ نظر این او سی واپس لے لی، لیکن اب ایک بار پھر انتظامیہ نے مارچ کے منتظمین کو دو شہروں میں ریلیاں نکالنے کی اجازت دے دی ہے۔

اقلیتی حقوق مارچ اسلام آباد اور کراچی میں 11 اگست کو منعقد ہوں گے۔ دوسری جانب سکھر کی مقامی انتظامیہ کا کہنا ہے کہ شہر میں اقلیتی مارچ کی این او سی ریلی کے شرکا کی حفاظت کو مدِ نظر رکھتے ہوئے منسوخ کی گئی ہے۔

کراچی میں اقلیتی حقوق مارچ کے لیے سندھ حکومت نے منتظمین اجازت دے رکھی تھی۔ تاہم انسانی حقوق کی کارکن شیما کرمانی نے بعد میں کراچی پریس کلب میں ایک پریس کانفرنس کے دوران کہا کہ انھیں افسوس ہے کہ ’اب ریلی نکالنے کی اجازت واپس لے لی گئی ہے۔‘

سندھ حکومت سے جب اس بارے میں سوال کیا گیا تو ایک ترجمان نے بتایا کہ ’ان دنوں میں دہشت گردی کے واقعات اور ریلی کے شرکا پر حملہ ہونے کا خطرہ تھا۔ جس کے نتیجے میں یہ این او سی واپس لی گئی تھی۔‘

ریلی کے منتظمین کے مطابق اقلیتی حقوق مارچ میں توہینِ مذہب کے قانون کے غلط استعمال اور ہندو برادری سے تعلق رکھنے والی کم عمر لڑکیوں کی جبری شادیوں کے خلاف تقاریر ہونی تھیں۔

لیکن اس ریلی کے منعقد ہونے سے چند روز پہلے متعدد مذہبی گروہوں نے اقلیتی حقوق مارچ کی مخالفت کی تھی۔

اس حوالے سے کراچی میں تحریکِ لبیک پاکستان سے منسلک ایک شخص کا ویڈیو بیان بھی سامنے آیا تھا جس میں وہ فریئر ہال میں بیٹھے ہوئے تھے اور کہہ رہے تھے کہ: ’ایسے کسی مارچ کا انعقاد نہیں ہونے دیں گے جس میں ناموسِ رسالت کے خلاف مظاہرہ کیا جائے۔‘

تاہم اب شیما کرمانی کا کہنا ہے کہ حکومت سندھ نے اب انھیں 11 اگست کو فریئر ہال میں جمع ہونے کی اجازت دے دی ہے۔

انھوں نے بی بی سی اردو کو بتایا کہ ’ہم سب وزیرِ اعلی اور بلاول بھٹو کے پاس گئے اور ان سے پوچھا کہ وہ کیسے اپنے صوبے میں موجود اقلیتوں کو مارچ نکالنے اور اپنا دن منانے کی اجازت نہیں دے رہے ہیں؟‘

کراچی کے فریئر ہال میں اس مارچ کا انعقاد ’مائنوریٹیز رائٹس گروپ‘ نامی ادارہ کروا رہا ہے۔

ادارے نے سوشل میڈیا پلیٹ فارم ’ایکس‘ پر ایک پوسٹ میں لکھا کہ ’اس مارچ کا براہِ راست تعلق پاکستان کے بانی محمد علی جناح کی 11 اگست کی اس تقریر سے ہے جس میں انھوں نے کہا تھا کہ ’آپ سب آزاد ہیں اپنے مندروں میں جانے کے لیے، آپ سب آزاد ہیں اپنی مسجدوں میں جانے کے لیے اور کسی بھی عبادت گاہ جانے کے لیے۔ مملکت کا اس سے کوئی سروکار نہیں ہے۔‘

دوسری جانب اس مارچ کے حوالے سے اسلام آباد کی انتظامیہ کا کہنا ہے کہ شہر میں پہلے ہی سے دفعہ 144 نافذ ہے جس کے تحت کسی بھی گروہ کو ریلی نکالنے کی اجازت نہیں۔

انتظامیہ کے ایک افسر نے بی بی سی کو بتایا کہ اب اقلیتی حقوق مارچ کے منتظمین اور شرکا اسلام آباد پریس کلب کے سامنے تقاریر کریں گے، جہاں جانے کے لیے کسی اجازت کی ضرورت نہیں ہوتی۔

اس حوالے سے بی بی سی اردو سے بات کرتے ہوئے وکیل رہنما عثمان وڑائچ کا کہنا تھا کہ ’موجودہ صورتحال میں ایسے قوانین کی مخالفت کرنا ضروری ہوچکا ہے جس سے اقلیتی برادری اور مسلمان دونوں کو خطرا ہے۔‘

رواں سال پنجاب میں سپیشل برانچ نے ایک رپورٹ مرتب کی ہے، جس میں توہینِ مذہب سے متعلق 400 جھوٹے مقدمات کا ذکر کیا گیا ہے۔

اس رپورٹ میں ایک ایسے گروہ کی نشاندہی بھی کی گئی ہے جو گذشتہ برس توہینِ مذہب سے متعلق مقدمات میں لوگوں کو پھنسانے اور پھر ان مقدمات سے انھیں بچانے کے لیے پیسے وصول کرتا تھا۔

اسی طرح ایڈووکیٹ عثمان وڑائچ کا بھی کہنا ہے کہ اس طرح کے گروہ بھی موجود ہیں جو توہینِ مذہب میں زبردستی پھنسائے گئے افراد کے خلاف مقدمات بناتے اور عدالت میں لڑتے ہیں۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button