اسماعیل ہنیہ کی موت کے بعد مقبوضہ مغربی کنارے میں احتجاج، دکانیں بند اور نعروں کی گونج

پال ایڈم،

اسماعیل ہنیہ کی موت کی خبر کے بعد اپنے غم و غصے کے اظہار کے لیے رام اللہ میں رہنے والے فلسطینی شہریوں نے سورج ڈھلنے کے بعد دکانیں بند کیں اور شہر کی سڑکوں پر احتجاج کے لیے نکل کھڑے ہوئے۔

مقبوضہ مغربی کنارے کا شہر رام اللہ گو کہ قطعی طور پر حماس کا گڑھ نہیں شاید اس لیے یہ مظاہرہ بہت بڑا نہیں تھا اور اس میں زیادہ سے زیادہ چند سو لوگ شامل تھے۔

تاہم اسماعیل ہنیہ کے قتل سے پیدا ہونے والے دکھ، صدمے اور غصے کا احساس بخوبی نمایاں تھا۔

ان مظاہروں میں حماس کے سبز بینرز جہاں سربلند تھے وہیں سیاہ، سفید، سبز اور سرخ رنگوں والے فلسطینی پرچم بھی بڑی تعداد میں دیکھے جا سکتے تھے۔

بہت سے بچے کھلونا مشین گنیں اٹھائے اپنے باپ کے کندھوں پر سوار اس احتجاج میں شامل تھے۔ سڑکوں پر نعروں کی گونج نمایاں تھی لیکن اس شور کے پس منظر میں پریشانی بھی چھپی ہے۔

فلسطینیوں کو لگتا ہے کہ موجودہ صورت حال ایک وسیع تر تنازع کا آغاز ہو سکتا ہے جو مغربی کنارے کو اپنی لپیٹ میں لے سکتا ہے۔

انھیں لگتا ہے کہ بنیامین نیتن یاہو کی دائیں بازو کی حکومت بھی یہی چاہتی ہے۔ اعتدال پسند فلسطینی سیاست دان اور سابق صدارتی امیدوار مصطفیٰ برغوتی نے مظاہرین کے ساتھ چلنے کی تیاری کے دوران مجھے اپنے خدشات سے آگاہ کیا۔

’میرے خیال میں اسرائیلی حکومت نے اپنی زندگی کی سب سے بڑی غلطیوں میں سے ایک کا ارتکاب کیا ہے۔ یہ ایک سیاسی، مجرمانہ فعل ہے اور اگر وہ سمجھتے ہیں کہ اس قتل سے فلسطینی مزاحمت کو توڑا جا سکے گا تو وہ سراسر غلط ہیں۔‘

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button