سیاسی وابستگی کا سرٹیفیکیٹ ناقابل تبدیل، مخصوص نشستیں صرف جمع شدہ فہرست پر دی جائیں: الیکشن ایکٹ میں ترامیم قومی اسمبلی میں پیش

پاکستان کے پارلیمنٹ کے ایوان زیریں یعنی قومی اسمبلی میں الیکشن ایکٹ 2017 ترمیمی بل پیش کردیا گیا ہے، جسے سپیکر سردار ایاز صادق نے متعلقہ قائمہ کمیٹی کو بھجوا دیا۔

اس بل کے مطابق کوئی رکن اسمبلی اپنی سیاسی وابستگی کے لیے نیا پارٹی سرٹیفیکیٹ نہیں دے سکا گا اور مخصوص نشستیں صرف اس سیاسی جماعت کو ملیں گی جس نے اس کی لیے فہرست پہلے سے جمع کرا رکھی ہو۔

منگل کو قومی اسمبلی کے اجلاس میں یہ بل حکومتی رکن بلال اظہر کیانی نے پیش کیا ہے۔ جیسے ہی یہ بل اسمبلی میں پیش کیا گیا تو اپوزیشن نے بل کی مخالفت کی اور ’نو نو‘ کے نعرے لگائے۔

بی بی سی کو حاصل دستاویزات کے مطابق الیکشن ترمیمی ایکٹ 2024 میں دو ترامیم متعارف کرائی جارہی ہیں۔ پہلی ترمیم الیکشن ایکٹ 2017 کے سیکشن 66 اور دوسری ترمیم الیکشن ایکٹ 2017 کے سیکشن 104 میں متعارف کروائی گئی ہے۔

پہلی ترمیم میں کہا گیا ہے کہ اپنی کسی سیاسی جماعت سے وابستگی کا پارٹی سرٹیفیکیٹ تبدیل نہیں کیا جا سکتا ہے۔ دوسری ترمیم میں کہا گیا ہے کہ جس پارٹی نے مخصوص نشستوں کی فہرست الیکشن کمیشن کو نہ دی ہو اسے مخصوص نشستیں نہیں دی جا سکتیں۔ ترمیمی ایکٹ 2024 کے مطابق یہ دونوں ترامیم منظوری کے بعد فوری طور پر نافذالعمل ہوں گی۔

واضح رہے کہ چند روز قبل مخصوص نشستوں کے مقدمے میں سپریم کورٹ کے فل بینچ نے ایک فیصلہ میں قرار دیا کہ پی ٹی آئی خواتین اور اقلیتوں کی مخصوص نشستیں لینے کی حقدار ہے اور اس کے ساتھ ساتھ پنجاب، خیبر پختونخوا اور سندھ میں بھی مخصوص نشستیں پی ٹی آئی کو دے دی جائیں۔

سپریم کورٹ نے اپنے فیصلے میں کہا ہے کہ پی ٹی آئی بحیثیت جماعت مخصوص نشستیں حاصل کرنے کی قانونی و آئینی حق دار ہے، قومی اور صوبائی اسمبلیوں کے منتخب ارکان پی ٹی آئی کا حلف نامہ دیں، جن امیدواروں نے سرٹیفکیٹ دیا کہ وہ پی ٹی آئی سے ہیں وہ اس جماعت کے ہی اراکین تصور کیے جائیں گے۔

سپریم کورٹ کے اس فیصلے کے خلاف حکومتی جماعت ن لیگ اور حکومتی اتحادی پاکستان پیپلز پارٹی نے نظرثانی کی درخواستیں دائر کر رکھی ہیں۔ سپریم کورٹ نے ابھی مخصوص نشستوں سے متعلق تفصیلی فیصلہ جاری نہیں کیا ہے اور نہ ہی نظرثانی کی درخواستوں کو سماعت کے لیے ابھی تک مقرر کیا ہے۔

خیال رہے کہ سپریم کورٹ نے تحریک انصاف کے حق میں فیصلہ آٹھ پانچ کے تناسب سے دیا اور چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ اقلیتی ججز میں شامل ہیں یعنی وہ ججز جو تحریک انصاف کو یہ نشستیں دینے کے خلاف تھے۔

وزیر قانون اعظم نذیر تارڑ نے قومی اسمبلی کے اجلاس میں اظہار خیال کرتے ہوئے کہا کہ عدلیہ کو آئین اور قانون کی تشریح کا اختیار تو حاصل ہے مگر آئین دوبارہ تحریر کرنے کا اختیار نہیں ہے۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button