کیا حزب اللہ اسرائیل کے ساتھ جنگ کر سکتی ہے؟

اس سے قبل اسرائیل اور حزب اللہ کے درمیان لڑائی گزشتہ سال 8 اکتوبر کو اس وقت شدت اختیار کر گئی تھی جب حزب اللہ نے فلسطینیوں کے ساتھ اظہار یکجہتی کرتے ہوئے اسرائیلی ٹھکانوں کو نشانہ بنایا تھا۔
اس کے بعد سے حزب اللہ نے شمالی اسرائیل اور گولان کی پہاڑیوں پر اسرائیلی ٹھکانوں پر راکٹ داغے ہیں، اسرائیل کی بکتر بند گاڑیوں پر ٹینک شکن میزائل داغے ہیں اور ڈرونز کی مدد سے اسرائیلی فوجی اہداف کو نشانہ بھی بنایا ہے۔
اسرائیل کی دفاعی افواج (آئی ڈی ایف) نے لبنان میں حزب اللہ کے ٹھکانوں پر فضائی حملوں اور ٹینکوں اور توپ خانے سے فائرنگ کی ہے۔
لڑائی کے باوجود، مبصرین کا کہنا ہے کہ اب تک فریقوں نے سرحد پار کیے بغیر برے پیمانے پر ایک دوسرے کے احداف کو نشانہ بنایا ہے اور یہ سلسلہ وقفے وقفے سے جاری ہے۔ تاہم اب ماہرین اور مبصرین کی جانب سے یہ خدشہ ظاہر کیا جا رہا ہے کہ حزب اللہ کی جانب سے اسرائیل پر ہونے والے اس حالیہ حملے کے بعد صورتحال قابو سے باہر ہ سکتی ہے اور خطے میں جاری کشیدگی میں اضافہ ہو سکتا ہے۔
حزب اللہ کے رہنما حسن نصراللہ کون ہیں؟
شیخ حسن نصراللہ ایک شیعہ عالم دین ہیں جو 1992 سے حزب اللہ کی قیادت کر رہے ہیں۔ انھوں نے حزب اللہ کو ایک سیاسی اور فوجی قوت میں تبدیل کرنے میں کلیدی کردار ادا کیا۔ ان کے ایران اور اس کے سپریم لیڈر آیت اللہ علی خامنہ ای کے ساتھ قریبی تعلقات ہیں۔
حسن نصر اللہ 15 سال کی عمر میں اس وقت کے سب سے اہم لبنانی شیعہ سیاسی عسکری گروپ کے رکن بن گئے جس کا نام امل موومنٹ تھا۔ یہ ایک بااثر اور فعال گروپ تھا جس کی بنیاد ایرانی موسی صدر نے رکھی تھی۔
اس دوران نصراللہ نے اپنی مذہبی تعلیم بھی شروع کی۔ نصراللہ کے اساتذہ میں سے ایک نے مشورہ دیا کہ وہ شیخ بننے کا راستہ اختیار کریں اور نجف جائیں۔ حسن نصر اللہ نے یہ مشورہ قبول کر لی اور 16 سال کی عمر میں عراق کے شہر نجف چلے گئے۔
حسن نصر اللہ کی لبنان واپسی کے ایک سال بعد ایران میں انقلاب آیا اور روح اللہ خمینی نے اقتدار پر قبضہ کر لیا۔ یہاں سے ناصرف لبنان کی شیعہ برادری کا ایران کے ساتھ تعلق بالکل بدل گیا بلکہ ان کی سیاسی زندگی اور مسلح جدوجہد بھی ایران میں رونما ہونے والے واقعات اور نظریے سے شدید متاثر ہوئی۔
حسن نصراللہ نے بعد میں تہران میں اسلامی جمہوریہ ایران کے اس وقت کے رہنما سے ملاقات کی اور خمینی نے انھیں لبنان میں اپنا نمائندہ مقرر کیا۔
عباس موسوی کو حزب اللہ کا جنرل سیکرٹری منتخب ہونے کے ایک سال سے بھی کم عرصے میں اسرائیلی ایجنٹوں نے ان کو قتل کر دیا اور اسی سال، 1992 میں اس گروپ کی قیادت حسن نصر اللہ کے ہاتھ میں چلی گئی۔
اس وقت ان کی عمر 32 سال تھی۔ اس وقت لبنان کی خانہ جنگی کے خاتمے کو ایک سال گزر چکا تھا اور نصر اللہ نے ملک میں حزب اللہ کی سیاسی شاخ کو اپنی عسکری شاخ کے ساتھ ساتھ ایک سنجیدہ کھلاڑی بنانے کا فیصلہ کیا۔