’میں بحیثیت وزیر اعلیٰ خیبر پختونخوا اعلان کرتا ہوں کہ اس صوبے میں آپریشن نہیں ہونے دیں گے‘:علی امین گنڈا پور

پاکستان کے صوبہ خیبرپختونخوا کے شہر بنوں میں جلسہ عام سے خطاب کرتے ہوئے وزیر اعلیٰ علی امین گنڈا پور نے کہا ’میں بحیثیت وزیر اعلیٰ خیبر پختونخوا اعلان کرتا ہوں کہ اس صوبے میں آپریشن نہیں ہونے دیں گے۔‘

انھوں نے کہا کہ ’قربانی دینا ہمارے خون میں شامل ہے، ہمارے آباؤ اجداد نے ہمیں یہ سکھایا ہے۔ اس ملک کے لیے اپنا خون دیں گے مگر اپنے فیصلے ہم خود کریں گے، ہمارے فیصلے کوئی اور نہیں کرے گا۔‘

پاکستان کے وزیر اعظم شہباز شریف نے حال ہی میں نیشنل ایکشن پلان کی ایپکس کمیٹی کے اجلاس کے بعد خطاب کرتے ہوئے شدت پسندوں کے خلاف عزم استحکام کے نام سے ایک نیا آپریشن شروع کرنے کا اعلان کیا تھا جس پرحزب اختلاف کی جماعتوں سمیت متعدد سیاسی جماعتوں کے علاوہ خاص طور پر قبائلی عمائدین اور عوام نے شدید تحفظات کا اظہار کیا۔

بنوں میں دہشت گردی کے بڑھتے ہوئے واقعات کے خلاف شہر کی تاجر برادری کی اپیل پر گذشتہ جمعے کے روز ہونے والے ’امن مارچ‘ میں ہزاروں افراد شریک ہوئے تھے اور اس دوران فائرنگ اور بھگدڑ مچنے سے کم از کم ایک شخص ہلاک اور متعدد افراد زخمی ہو گئے تھے۔

فائرنگ کے واقعے کے بعد یہ مارچ دھرنے میں تبدیل ہو گیا تھا۔

اس دوران امن مارچ اور دھرنے کے قائدین نے حکومت سے مذاکرات کے پہلے دور میں دس مطالبات پیش کیے تھے جن میں طالبان کے مراکز کے مکمل خاتمے اور فوجی آپریشن کی بجائے پولیس کو بااختیار بنانے اور سی ٹی ڈی کو انسدادِ دہشت گردی کی تمام کارروائیوں کی کمان سونپنے کی بات کی گئی تھی۔

جمعے کو جلسے میں بنوں کے عوام سے خطاب کرتے ہوئے وزیر اعلیٰ نے کہا کہ ’ایپکس کمیٹی میں تفصیلی بات ہوئی ہے اور جیسا آپ نے کہا ویسا ہی وہاں فیصلہ ہوا۔ میرے پاس دستخط شدہ دستاویزات موجود ہیں۔‘

انھوں نے کہا کہ 16 نکات میں ایک نکتہ تھا کہ مدارس یا کسی بھی گھر جسے ’ٹھکانہ‘ سمجھا جاتا ہے، وہاں پولیس جائے گی اور وہ اس معاملے کو حل کرے گی۔ علی امین کے مطابق ’اس مطالبے کو من و عن لکھا گیا ہے۔‘

علی امین گنڈا پور نے کہا کہ یہاں شر پسندی پھیلانے والے اپنی اصلاح کر لیں۔ انھوں نے کہا کہ ’کوئی بھی مسلح گروہ یا شخص کسی کا بھی نام لے کر مجھے پختونخوا میں نظر نہ آئے۔‘

انھوں نے کہا کہ ’پولیس کو مبارکباد پیش کرتا ہوں کہ اس نے ایسے عناصر کے خلاف کارروائی شروع کر دی ہے۔‘ وزیراعلیٰ نے پولیس سے کہا کہ ’دب کے رکھو، میں آپ کے ساتھ ہوں، عوام آپ کے ساتھ ہیں۔‘

انھوں نے کہا کہ ’یہ میرے عوام ہیں، یہ میری ذمہ داری ہے۔ کسی کو ہاتھ ڈالنے سے پہلے وہ سوچ لے کہ وہ ان کو نہیں بلکہ وزیراعلیٰ کو ہاتھ ڈال رہا ہے۔‘

انھوں نے عوام سے کہا کہ ’بدعنوانی کے خلاف لڑو، منشیات فروش کو مت چھوڑ، نشاندہی کرو، مقابلہ کرو، سامنا کرو، میں آپ کے ساتھ ہوں۔‘

انھوں نے کہا کہ ’پاکستان کو آزاد کرانے میں پختونخوا اور پختونوں نے بے پناہ کردار ادا کیا ہے۔

انھوں نے کہا کہ ’ہم نے تن من دھن کے ساتھ اپنی مٹی، اپنی قوم، اپنے ملک اور اپنی عوام سے وفا کی۔‘

وزیر اعلیٰ نے کہا کہ ’غلط پالیسیاں بنانے والے لوگ، غلط پالیسیاں ہمارے اوپر تھوپنے والے لوگ، امریکہ کے غلاموں نے۔۔ ایسی پالیسیاں بنائیں جس سے ہمیں بہت قربانیاں دینی پڑی ہیں۔‘

انھوں نے کہا کہ ’امریکی ایجنڈے کی پالیسیوں پر عمل کرتے ہوئے ہمارے اوپر آپریشن کیا۔ اس کے بعد پختون رزق حلال کے لیے خانہ بدوش بنے۔ دوسرے صوبوں میں گئے اس پر بھی ہمیں اعتراض ہے۔ ہمارے نام پر ڈالر لے کر کھائے گئے ہمیں اس پر بھی تحفظات ہیں۔‘

وزیر اعلیٰ نے کہا کہ ’عقلمند انسان وہ ہوتا ہے جو کسی دوسرے کے تجربے سے سیکھتا ہے جبکہ بے وقوف وہ ہے جو اپنے تجربے سے بھی نہ سیکھے۔

حکومت کا ردعمل: یہ باتیں تو ایپکس کمیٹی میں ہوئیں کہ آپریشن نہیں بلکہ انٹیلیجنس بیسڈ آپریشن ہو گا‘

وفاقی وزیر امیر مقام نے وزیر اطلاعات عطااللہ تارڑ کے ہمراہ ایک پریس کانفرنس میں وزیر اعلیٰ خیبر پختونخوا کے بنوں میں جلسہ عام سے خطاب پر اپنا ردعمل دیتے ہوئے کہ یہ سب باتیں تو ایپکس کمیٹی میں ہوئیں کہ صوبے میں آپریشن نہیں بلکہ ’انٹیلیجنس بیسڈ‘ آپریشن ہو گا تو پھر اس طرح کریڈٹ لینا مناسب نہیں۔

امیر مقام نے کہا کہ اس کی وضاحت پہلے بھی دی جا چکی ہے کہ یہ غلط فہمی پیدا کی جا رہی ہے یہ آپریشن نہیں ہے۔

امیر مقام نے وزیر اعلیٰ کو مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ ’جب صوبے میں آپریشن ہوئے تو حکومت تو آپ کی تھی۔ شاید اڈیالہ سے آپ کو معلومات ملی ہوں۔ اس کی وضاحت کریں کہ امریکہ سے جو ڈالر ملتے تھے وہ ڈالر اگر مل گئے تو آپ کو پتا ہو گا۔ آپ کے وزیر اعلیٰ کو پتا ہو گا۔‘

امیر مقام نے کہا کہ ’آپ کی تیسری دفعہ حکومت آ گئی ہے تو آپ نے رٹ کیوں قائم نہیں کی گئی۔‘

انھوں نے کہا کہ ’ابھی تک سی ٹی ڈی کا دفتر تک آپ نے قائم کر سکے۔ پی ڈی ایم کی حکومت کے دوران شہباز شریف نے اس کے قیام کی منظوری دی تھی۔ آ کر تقریر کر کے چلے جاتے ہیں تو یہ دکھ کی بات ہے۔‘

امیر مقام نے کہا کہ ’اگر دہشتگردی کی بات ہے تو پھر ان سے ہم زیادہ دہشتگردی کا شکار ہوئے۔ آٹھ دفعہ ہم پر حملے ہوئے۔ آٹھ لوگ ہمارے شہید ہو گئے مگر کھل کر اس دہشتگردی کے خلاف بات کی۔ اب آپ کو اس پر سیاست چمکانے کی ضرورت نہیں ہے۔‘

آپ بدعنوانی کے خلاف لڑائی کی بات کر رہے تھے آپ صوبے میں پوچھیں کہ وہ یہ سب کرپشن کون کر رہا ہے۔

وزیر اطلاعات عطااللہ تارڑ نے کہا کہ دہشتگردوں کو آپ لے کر آئے ہیں اور اب کہتے ہیں کہ یہ برداشت نہیں کیا جائے گا۔ انھوں نے صوبے میں جنگلات کی کٹائی اور ٹمبر مافیا سے متعلق سوالات اٹھائے۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button